Bismillah

Bismillah

Ayyat

Ayyat

Pakistani Human Resource available

This is to clarify to our all visitor and members that, we obey all Pakistani Rules and Regulations which is implemented in Pakistan by Pakistani Government. Our main purpose of posting and circulating data on our site is only for Pakistani nation knowledge and information. So using this data for any other purpose or misuse of data, we will not take any responsibilities of this type of activities, kindly do not use this data for any illegal activities which is prohibited by Pakistani Government, and follow the all rules of Pakistani Government about Cyber Crimes.

We can provide you all type of Pakistani best Human Resource Skilled and Unskilled for all over the world and specially for Arab countries. If you required any type of Human Resource you can send us email at : joinpakistan@gmail.com We will do our best to satisfy your needs according to your requirement.

If you required a job or if you are searching for a good employee please contact us at : joinpakistan@gmail.com

Charagh

Charagh

Friday, May 27, 2011

 

"آج ہم اسلامیانِ پاکستان جہاں پہنچ گئے ہیں……اس میں ہم کسی کو دوش نہ دیں……صاف صاف اعتراف کریں کہ یہ ہمارے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے……اور اُن کو کسی لاگ لپٹ کے بغیر پہچانیں جنہوں نے ہمیں یہاں تک پہنچایا ہے……پہنچانے کا ہر ہر سامان کیا ہے……"

ذرا ان مذکورہ جملوں کو بغور پڑھیے کہ یہ کس کھلے طور پر ایک دوسرے کو جھٹلارہے اور پہلا دوسرے کی اور دوسرا پہلے کی گردن ماررہا اور گلا کاٹ رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ہم جس ذلت و پستی اور ابتلاء و بدحالی کے مقام پر پہنچے ہیں اُس پر اپنی بداعمالیوں اور کرتوتوں کی وجہ سے پہنچے ہیں اور اس کے لیے ہمیں کسی دوسرے کو دوشی اور مجرم قرار دینے کا کوئی حق نہیں ہے تو پھر یہ اگلا فقرہ :

……اور اُن کو کسی لاگ لپٹ کے بغیر پہچانیں جنہوں نے ہمیں یہاں تک پہنچایا ہے……پہنچانے کا ہر ہر سامان کیا ہے……

کیا بلا ہے۔ بھئی یا تو پوری قوم اور اس کا فرد فرد اپنی موجودہ بدحالی و ابتری کا ذمے دار ہے یا پھر آپ کے بقول صرف اور صرف وہ بکاؤ جرنیلز، سیاسی کمانڈرز اور میڈیائی مجاہدین اس صورتحال کی رونمائی کے ذمے دار و تخلیق کار ہیں، جنہیں آپ اس طرح کی ای میلز میں جی بھر کر کوستے اور ہر طرح کے برے، بدترین اور زہریلے فقروں، طنزوں اور نشتروں سے اپنے غیض و غضب کا نشانہ بناتے رہتے ہیں۔

آخر بتائیے تو سہی کہ ان دونوں باتوں میں سے کون سی بات ٹھیک اور حقیقت کی عکاس و غماز ہے؟؟؟

بات اصل میں یہ ہے کہ ہماری قوم کا معاملہ یہ ہے کہ اس کا ہر ہر فرد اپنے حدود اور اختیارات کے دائرے میں کرپٹ اور گھٹیا ترین اخلاق و کردار والا ہے۔ عام آدمی اپنے چھوٹے گول دائرے میں اسی سوچ، خود غرضی، مفاد پرستی، بے ضمیری، اجتماعی مفاد سے بے پروائی اور لوٹ کھسوٹ اور اوپری کمائی کی گندگیوں میں لتھڑا ملتا ہے جس میں بظاہر حکمران و صاحبانِ حیثیت و ثروت و اختیار طبقات زیادہ بڑے پیمانے پر ملوث و آلودہ نظر آتے ہیں۔ صورتحال حقیقت میں وہی ہے جسے ہمارے ایک محترم نے "ہر کرسی پر فرعون بیٹھا ہے" نامی اپنے ایک خوبصورت مضمون میں بیان فرمایا تھا کہ اس قوم کی بدقسمتی اس کے حکمران اور با اثر و اختیار لوگ اور ان کا کرپشن نہیں بلکہ یہ ہے کہ اس کا ہر ہر فرد فرعون و شیطان بنا ہوا ہے۔ ہر کوئی بے ایمان، خائن، لٹیرا، بے حس، مفاد پرست اور بکاؤہے۔ ہر کسی کی کوئی نہ کوئی قیمت ہے جس کے ملنے پر وہ ہر طرح کی بدی، خیانت، ظلم، کرپشن اور قوم فروشی و اجتماعی مفاد کی ملیا میٹی پر بخوشی راضی ہوجاتا ہے۔

دنیا میں قوموں نے ہم سے بہت زیادہ بدترین حالات سے ابھر کر اور ترقی و خوشحالی کی معراجوں پر پہنچ کر دکھایا ہے۔ کیوں کہ ان قوموں کے افراد جاگ گئے تھے اور انہوں نے ٹھان لی تھی کہ ہم اپنی قومی ترقی اور اجتماعی بہبود کے لیے جو کچھ کرسکتے ہیں، اس سے دریغ نہ کریں گے اور اپنے لوگوں کی فلاح و تعمیر کے لیے ہر طرح کی قربانی دیں گے۔ ہمارا مسئلے کا حل اور ہماری ضرورت بھی یہی ہے کہ افرادِ قوم جاگیں۔ اپنی بدعملیوں سے توبہ کریں۔ اپنے جرائم سے باز آئیں۔ اپنی چھوٹی چھوٹی حرام خوریاں بند کریں۔ اپنی معمولی معمولی دھوکے بازیاں، خیانتیں، رشوت خوریاں، بے حسیاں اور مفاد پرستیاں وغیرہ ختم کریں۔

اسی سے مسئلہ حل ہوگا اور ہم ترقی کی شاہراہ پر آگے بڑھیں گے۔ ہم اگر خالی کرپٹ حکمرانوں، غدار جرنیلوں اور میڈیائی جوکروں کے داغوں اور روگوں پر انگلیاں اٹھاتے اور انہیں سدھرنے اور سنورنے کی مظلومانہ اپیلیں کرتے اور پھسپھسی دھمکیاں دیتے رہے تو اس سے نہ پہلے کچھ ہوا ہے اور نہ آگے کچھ ہونے والا ہے۔ جو کچھ ہوگا وہ عام آدمی کے جاگنے، اپنی خرابیوں کو دور کرنے اور قوم و اجتماعیت کی خاطر تن من دھن کی بازی لگانے سے ہوگا۔

جو حضرات و برادرانِ گرامی اپنے سینے کے جذبات اور دل کی ڈھرکنوں میں قوم کا درد محسوس کرتے اور اس کی فلاح و بہتری اور تعمیر و ترقی کے لیے کچھ کرنے کا عزم و ارادہ رکھتے ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ اپنی اپنی بساط بھر دائرے میں چھوٹے چھوٹے عملی و تعمیری کاموں کو تسلسل کے ساتھ جاری کریں، اپنی زندگیاں اپنے اپنے شعبوں کے حوالے سے قوم کے شعور و ڈھانچے کو اوپر اٹھانے کے جہاد میں جھونک ڈالیں اور جو لوگ فکر و خیال کے میدان میں قوم کو روشنی و رہ نمائی دینے کی تڑپ اپنے اندر رکھتے ہیں، انہیں چاہیے کہ قوم کو مشکلات و مصائب کے پہاڑوں کے نقشے دکھادکھا کر اور اپنے بدخواہ اور بے غیرت و حمیت حکمرانوں کے مظالم و مفاسد کی داستانیں سنا سناکر مایوس و دل شکستہ کرنے کے بجائے اس کے عزم و حوصلے کو ابھاریں، اس کے اندر اعتماد و خود داری پیدا کریں، اپنے بل پر اٹھنے اور اپنی تعمیر آپ کرنے کی امنگیں جگائیں، نوجوانانِ قوم کے ذہانت و صلاحیت کو صحیح رخوں اور مثبت میدانوں میں موڑنے کی کوشش کریں، مادیات کی اندھی بہری دوڑ میں شامل ہوکر خود غرضی و مفاد پرستی و بے حسی کے مردہ پیکروں میں ڈھلنے کے بجائے سادگی اپناکر اور اپنی قابلیتیں اور لیاقتیں کام میں لاکر اپنے  اور قوم کے لیے بہترین و شاندار مستقبل کا سویرا طلوع کرنے کے لیے تن من دھن سے محنت کرنے کے ولولے پھیلائیں۔ شکوے، شکایتیں، مظالم کی قصہ خوانیاں، حکمرانوں کے بگاڑ کی دہائیاں اور مایوسی و دل شکستگی کی باتیں قوم کی نیا کو پار تو کیا لگائیں گی، بحرِ پستی و بربادی میں کچھ اور گہرائی کے ساتھ غرقاب ضرور کردیں گی۔

جس قوم کی آبادی کا زیادہ بڑا حصہ تازہ دم توانائیوں سے بھرپور نوجوانوں پر مشتمل ہو، اسے ایسے کسی منجدھار سے گھبرانے اور دل چھوڑ بیٹھنے کی ہرگز ہرگز کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ضرورت ہے تو اس امر کی ہے کہ وہ اپنے اس انتہائی عزیز و قیمتی اثاثے کی صحیح قدردارنی کرے، اس کے علم و شعور کو بڑھائے اور اس کی بہترین تربیت و تعمیر کا اہتمام کرے اور اس میں یہ لگن بھر دے کہ اسے اپنی قوم و ملت کے لیے جینا اور مرنا ہے۔ پھر دیکھیے گا کہ کس طرح ہماری قوم و ملت کا ستارہ بھی عروج پر جاتا اور ترقی و بلندی و خوشحالی کی انتہائی چوٹیوں تک کو سر کرجاتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

License of Mining in Balochistan will be grant in next week to European companies

 

 

Thursday, May 26, 2011

????? ??? ????

 



بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلامُ علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

انگور اور شراب

مشہور شامی مصنف عادل ابو شنب نے اپنی کتاب شوام ظرفاء میں عرب مُلک شام میں متعین فرانسیسی کمشنر کی طرف سے دی گئی ایک ضیافت میں پیش آنے والے ایک دلچسپ واقعے کا ذکر کیا ہے۔ اُن دنوں یہ خطہ فرانس کے زیر تسلط تھا اور شام سمیت کئی آس پاس کے مُلکوں کیلئے ایک ہی کمشنر (موریس سارای) تعینات تھا۔ کمشنر نے اس ضیافت میں دمشق کے معززین، شیوخ اور علماء کو مدعو کیا ہوا تھا۔

اس ضیافت میں ایک سفید دستار باندھے دودھ کی طرح سفید ڈاڑھی والے بزرگ بھی آئے ہوئے تھے۔ اتفاق سے اُنکی نشست کمشنر کے بالکل آمنے سامنے تھی۔  کمشنر نے دیکھا کہ یہ بزرگ کھانے میں ہاتھ ڈالے مزے سے ہاتھوں کے ساتھ کھانا کھا رہا ہے جبکہ چھری کانٹے اُس کی میز پر موجود ہیں۔ ایسا منظر دیکھ کر کمشنر صاحب کا کراہت اور غُصے سے بُرا حال ہو رہا تھا۔ نظر انداز کرنے کی بہت کوشش کی مگر اپنے آپ پر قابو نا پا سکا۔ اپنے ترجمان کو بُلا کر کہا کہ اِس شیخ صاحب سے پوچھے کہ آخر وہ ہماری طرح کیوں نہیں کھاتا؟

شیخ صاحب نے ترجمان کو دیکھا اور نہایت ہی سنجیدگی سے جواب دیا؛ تو تمہارا خیال ہے کہ میں اپنئ ناک سے کھا رہا ہوں؟

کمشنر صاحب نے کہا، نہیں ایسی بات نہیں، ہمارا مطلب یہ ہے کہ تم چھری اور کانٹے کے ساتھ کیوں نہیں کھاتے؟

شیخ صاحب نے جواب دیا؛ مُجھے اپنے ہاتھوں کی صفائی اور پاکیزگی پر پورا یقین اور بھروسہ ہے، کیا تمہیں بھی اپنے چھری اور کانٹوں پر کی صفائی اور پاکیزگی پر اتنا ہی بھروسہ ہے؟

شیخ صاحب کے جواب سے کمشنر جل  بھن کر رہ گیا، اُس نے تہیہ کر لیا کہ اس اہانت کا بدلہ تو ضرور لے گا۔

کمشنر کی میز پر اُس کے دائیں طرف اُسکی بیوی اور بائیں طرف اُسکی بیٹی بھی ساتھ بیٹھی ہوئی تھی۔

چہ جائیکہ کمشنر عربوں کی ثقافت، روایات اور دینداری سے واقف تھا، مزید براں اُس نے اس ضیافت میں شہر کے معززین اور علماء کو مدعو کر رکھا تھا۔ مگر  ان سب روایتوں کو توڑتے ہوئے اُس نے اپنے لئے شراب منگوائی اور شیخ صاحب کو جلانے کی خاطر نہایت ہی طمطراق سے اپنے لیئے، اپنی بیوی اور بیٹی کیلئے گلاسوں میں اُنڈیلی۔ اپنے گلاس سے چُسکیاں لیتے ہوئے شیخ صاحب سے مخاطب ہو کر کہا؛ سنو شیخ صاحب، تمہیں انگور اچھے لگتے ہیں اور تم کھاتے بھی ہو، کیا ایسا ہے ناں؟

شیخ صاحب نے مختصراً کہا، ہاں،۔

کمشنر نے میز پر رکھے ہوئے انگوروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا؛ یہ شراب ان انگوروں سے نکالی  ہوئی ہے۔ تم انگور تو کھاتے ہو مگر شراب کے نزدیک بھی نہیں لگنا چاہتے!

ضیافت میں موجود ہر شخص کمشنر اور شیخ صاحب کے درمیان پیش آنے والی اس ساری صورتحال سے آگاہ ہو چکا تھا۔ سب کے چہروں سے نادیدہ خوف کے سائے نظر آ رہے تھے اور ہر طرف خاموشی تھی۔ مگر اس شیخ صاحب کے نا تو کھانے سے ہاتھ رُکے اور نا ہی چہرے پر آئی مسکراہٹ میں کوئی فرق آیا تھا۔

کمشنر کو مخاطب کرتے ہو ئے شیخ صاحب نے کہا؛ یہ تیری بیوی ہے اور یہ تیری بیٹی ہے۔ یہ والی اُس سے آئی ہوئی ہے۔ تو پھر کیوں ایک تو تیرے اوپر حلال ہے اور دوسری حرام ہے؟

مصنف لکھتا ہے کہ اسکے بعد کمشنر نے فوراً ہی اپنی میز سے شراب اُٹھانے کا حُکم دیدیا تھا۔


Wednesday, May 25, 2011

Diff between Japan and Pakistan progress is.....?

 

 

Pakistani Qaum ki behissi

 

 

APPEAL TO THE PATRIOTIC PAKISTANI NATION

APPEAL TO THE PATRIOTIC PAKISTANI NATION:      
We, the Pakistani nation are passing through very crucial and dangerous time. We must pay heeds to the circumstantial evidences. The responsibilities of rowing out the nation from the quagmire lays on the shoulders of Ruling Party and its alliances however, it also lies equally upon the shoulders of Nation as a whole.
If USA, Israel and India can unite to finish the remaining of Pakistan, Why we the Pakistanis, can not unite within one country and majority, being the Muslims.
On USA agenda, is to occupy seven Muslim countries within five years, for the control over Petroleum. Those countries are: Saudia, Libya, Iraq, Iran, UAE, Syria, & Bahrain + Oman.
Pakistan’s  Khyber Pakhtun Khawa and Baluchistan are very valuable lands as these areas contain the ores of Uranium, Molybdenum, Aluminum, Copper, Gold, & etc. and also precious stones like Rubies, Emeralds etc. â€" Also Pakistan is the only Muslim country which possess the teeth of Elephant (Nukes), which is intolerable to the rest of the World.
PLEASE UNITE UNDER ONE FLAG WITH ONE SLOGAN: UNITY, FAITH & DISCIPLENE. PLEASE SHUN ALL THE DIFFERENCES AND EACH OF US MAY PLEASE FULFIL OUR RESPONSIBILITIES.
FIRST OF ALL SHUN SECTS BATTLE, EACH ONE MAY GO BY HIS RELIGION BUT EACH OF US MUST CONSIDER OURSELVES AS â€" ‘FIRST PAKISTANI’ AND ‘LAST PAKISTANI.’
PLEASE SHUN RACIAL DIFFERENCES. THERE IS NO SINDHI, NO PUNJABI, NO MUHAJIR, NO PATHAN, NO BALUCHI. WE ARE ALL PAKISTANI.
WE ARE FIRST, ONLY PAKISTANI THEN POLTICIAN, BEUROCRAT, GENERAL, JUDGE, INDUSTRIALIST, ETC.
POLITICIANS MUST UNITE AS THE FINGERS OF HAND UNITE WITH THE PALM & PAKISTAN MUST BE ABOVE PARTY POLITICS.
I APPEAL TO ALL CONCIUOS PAKISTANIS TO RISE ON THE OCCASION AND WRITE MORE AND MORE AND CREAT PATRIOTIC ENTHUSIASM AND UNITY IN THE PUBLIC.
REMEMBER, IF WE ARE NOT SERIOUS TODAY, WE WILL BE OFFICIALLY NOTIFIED AS  'OCCUPIED' BY TOMORROW.
CHINA IS A GREAT FRIEND AND TRUST WORTHY BUT DO YOU THINK IT WISE TO FIGHT WAR WITH SUPER POWERS (USA+ISREAL+INDIA) FOR THE SAKE OF PAKISTAN? IT WILL GIVE HELP BUT YOU WILL HAVE TO FIGHT YOUR OWN WAR.
PAKISTAN ZINDA BAAD
               


Monday, May 23, 2011

-- U R D U -- مثبت کام کی بُنیاد تو ڈال دو


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلامُ علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

 

مثبت کام کی بُنیاد تو ڈال دو

۱۹۳۰ کے عشرے میں (یہ کمیونزم کے زمانے کا ذکر ہے) ایک طالبعلم نے جب مصر کی ایگریکلچر یونیورسٹی میں داخلہ لیا، وقت ہونے پر اُس نے نماز پڑھنے کی جگہ تلاش کرنا چاہی تو اُسے بتایا گیا کہ یونیورسٹی میں نماز پڑھنے کی جگہ تو نہیں ہے۔ ہاں مگر تہہ خانے میں بنے ہوئے ایک کمرے میں اگر کوئی چاہے تو وہاں جا کر نماز پڑھ سکتا ہے۔

طالبعلم یہ بات سوچتے ہوئے کہ دوسرے طالبعلم اور اساتذہ نماز پڑھتے بھی ہیں یا نہیں، تہہ خانے کی طرف اُس کمرے کی تلاش میں چل پڑا۔

وہاں پہنچ کر اُس نے دیکھا کہ نماز کیلئے کمرے کے وسط میں ایک پھٹی پرانی چٹائی تو بچھی ہوئی ہے مگر کمرہ صفائی سے محروم اور کاٹھ کباڑ اور گرد و غبار سے اٹا ہوا ہے۔ جبکہ یونیورسٹی کا ایک ادنیٰ ملازم وہاں پہلے سے نماز پڑھنے کیلئے موجود ہے۔ طالبعلم نے اُس ملازم سے پوچھا کیا تم یہاں نماز پڑھو گے؟

ملازم نے جواب دیا، ہاں، اوپر موجود لوگوں میں سے کوئی بھی ادھر نماز پڑھنے کیلئے نہیں آتا اور نماز کیلئے اس کے علاوہ کوئی جگہ بھی نہیں ہے۔

طالبعلم نے ملازم کی بات پر اعتراض کرتے ہوئے کہا؛ مگر میں یہاں ہرگز نماز نہیں پڑھوں گا اور اوپر کی طرف سب لوگوں کو واضح دکھائی دینے والی مناسب سی جگہ کی تلاش میں چل پڑا۔ اور پھر اُس نے ایک جگہ کا انتخاب کر کے نہایت ہی عجیب حرکت کر ڈالی۔

اُس نے بلند آواز سے اذان کہی! پہلے تو سب لوگ اس عجیب حرکت پر حیرت زدہ ہوئے پھر انہوں نے ہنسنا اور قہقہے لگانا شروع کر دیئے۔ اُنگلیاں اُٹھا کر اس طالبعلم کو پاگل اور اُجڈ شمار کرنے لگے۔ مگر یہ طالبعلم تھا کہ کسی چیز کی پرواہ کیئے بغیر اذان پوری کہہ کر تھوڑی دیر کیلئے اُدھر ہی بیٹھ گیا۔ اُس کے بعد دوبارہ اُٹھ کر اقامت کہی اور اکیلے ہی نماز پڑھنا شروع کردی۔ اُسکی نماز میں محویت سے تو ایسا دکھائی تھا کہ گویا وہ اس دنیا میں تنہا ہی ہے اور اُسکے آس پاس کوئی بھی موجود نہیں۔

دوسرے دن پھر اُسی وقت پر آ کر اُس نے وہاں پھر بلند آواز سے اذان دی، خود ہی اقامت کہی اور خود ہی نماز پڑھ کر اپنی راہ لی۔ اور اس کے بعد تو یہ معمول ہی چل نکلا۔ ایک دن، دو دن، تین دن۔۔۔وہی صورتحال۔۔۔  پھر قہقہے لگانے والے لوگوں کیلئے اُس طالبعلم کا یہ دیوانہ پن کوئی نئی چیز نہ رہی اور آہستہ آہستہ قہقہوں کی آواز  بھی کم سے کم ہوتی گئی۔ اسکے بعد پہلی تبدیلی کی ابتداء ہوئی۔ نیچے تہہ خانے میں نماز پڑھنے والے ملازم نے ہمت کر کے باہر اس جگہ پر اس طالبعلم کی اقتداء میں نماز پڑھ ڈالی۔ ایک ہفتے کے بعد یہاں نماز پڑھنے والے چار لوگ ہو چکے تھے۔ اگلے ہفتے ایک اُستاذ بھی آ کر اِن لوگوں میں شامل ہوگیا۔

یہ بات پھیلتے پھیلتے یونیورسٹی کے چاروں کونوں میں پہنچ گئی۔ پھر ایک دن چانسلر نے اس طالبعلم کو اپنے دفتر میں بلا لیا اور کہا: تمہاری یہ حرکت یونیورسٹی کے معیار سے میل نہیں کھاتی اور نہ ہی یہ کوئی مہذب منظر دکھائی دیتا ہے کہ تم یونیورسٹی ہال کے بیچوں بیچ کھڑے ہو کر اذانیں دو یا جماعت کراؤ۔ ہاں میں یہ کر سکتا ہوں کہ یہاں اس یونیورسٹی میں ایک کمرے کی چھوٹی سی صاف سُتھری مسجد بنوا دیتا ہوں، جس کا دل چاہے نماز کے وقت وہاں جا کر  نماز پڑھ لیا کرے۔

اور اس طرح مصر کی ایگریکلچر یونیورسٹی میں پہلی مسجد کی بنیاد پڑی۔ اور یہ سلسلہ یہاں پر رُکا نہیں، باقی کی یونیورسٹیوں کے طلباء کی بھی غیرت ایمانی جاگ اُٹھی اور ایگریکلچر یونیورسٹی کی مسجد کو بُنیاد بنا کر سب نے اپنے اپنے ہاں مسجدوں کی تعمیر کا مطالبہ کر ڈالا اور پھر ہر یونیورسٹی میں ایک مسجد بن گئی۔

اِس طالبعلم نے ایک مثبت مقصد کے حصول کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا اور پھر اِس مثبت مقصد کے نتائج بھی بہت عظیم الشان نکلے۔ اور آج دن تک، خواہ یہ طالبعلم زندہ ہے یا فوت ہو چکا ہے، مصر کی یونیورسٹیوں میں بنی ہوئی سب مسجدوں میں اللہ کی بندگی ادا کیئے جانے کے عوض اجر و ثواب پا رہا ہےاور رہتی دُنیا تک اسی طرح اجر پاتا رہے گا۔ اس طالب علم نے اپنی زندگی میں کار خیر کر کے نیک اعمالوں میں اضافہ کیا۔

میرا آپ سے یہ سوال ہے کہ

ہم نے اپنی زندگیوں میں ایسا کونسا اضافہ کیا ہے؟ تاکہ ہمارا اثر و رسوخ ہمارے گردو نواح کے ماحول پر نظر آئے، ہمیں چاہیئے کہ اپنے اطراف میں نظر آنے والی غلطیوں کی اصلاح کرتے رہا کریں۔ حق و صدق کہنے اور کرنے میں کیسی مروت اور کیسا شرمانا؟ بس مقاصد میں کامیابی کیلئے اللہ تبارک و تعالیٰ کی مدد و نصرت کی دعا مانگتے رہیں۔

اور اسکا فائدہ کیا ہوگا؟

·       اپنے لیئے اور دوسرے کیلئے سچائی اور حق کا علم بُلند کر کے اللہ کے ہاں مأجور ہوں کیونکہ جس نے کسی نیکی کی ابتداء کی اُس کیلئے اجر، اور جس نے رہتی دُنیا تک اُس نیکی پر عمل کیا اُس کیلئے اور نیکی شروع کرنے والے کو بھی ویسا ہی اجر ملتا رہے گا۔

·       لوگوں میں نیکی کرنے کی لگن کی کمی نہیں ہے بس اُن کے اندر احساس جگانے کی ضرورت ہے۔ قائد بنیئے اور لوگوں کے احساسات کو مُثبت رُخ دیجیئے۔

·       اگر کبھی اچھے مقصد کے حصول کے دوران لوگوں کے طنز و تضحیک سے واسطہ پڑے تو یہ سوچ کر دل کو مضبوط رکھیئے کہ انبیاء علیھم السلام کو تو تضحیک سے بھی ہٹ کر ایذاء کا بھی نشانہ بننا پڑتا تھا۔