Bismillah

Bismillah

Ayyat

Ayyat

Pakistani Human Resource available

This is to clarify to our all visitor and members that, we obey all Pakistani Rules and Regulations which is implemented in Pakistan by Pakistani Government. Our main purpose of posting and circulating data on our site is only for Pakistani nation knowledge and information. So using this data for any other purpose or misuse of data, we will not take any responsibilities of this type of activities, kindly do not use this data for any illegal activities which is prohibited by Pakistani Government, and follow the all rules of Pakistani Government about Cyber Crimes.

We can provide you all type of Pakistani best Human Resource Skilled and Unskilled for all over the world and specially for Arab countries. If you required any type of Human Resource you can send us email at : joinpakistan@gmail.com We will do our best to satisfy your needs according to your requirement.

If you required a job or if you are searching for a good employee please contact us at : joinpakistan@gmail.com

Charagh

Charagh

Tuesday, September 30, 2014

آپریشن بیدار: ونگز اوور چاغی


آپریشن بیدار: ونگز اوور چاغی....!!!!!
تحریر تھوڑی لمبی ضرور ھے مگر انشاءالله آپ کا وقت ضائع نھیں ھوگا
___________________________________________________
سات جون 1981 میں بغداد کے جنوب میں موجود فرانس کے تعاون سے بننے والے عراقی نیوکلئیر ری ایکٹر سائٹ "تموز 1" پر ہونے والے اسرائیلی فضائی حملے کے بعد پاکستان کو یہ احساس ہو گیا تھا کہ اسرائیل کے اگلے ایڈونچر کا نشانہ پاکستان ہی ہو گا۔ 
کہوٹہ پر حملے کا منصوبہ عراقی ری ایکٹر پر حملے کے منصوبے کا ہی ایک حصہ تھا اور پلان کے مطابق اگر عراقی ری ایکٹر پر حملہ کامیاب رہتا تو اسرائیل پاکستانی ری ایکٹر پر بھی حملہ کرنے کے منصوبے کو آگے بڑھاتا۔ عراقی تنصبات پر ہونے والا حملہ کامیاب رہا تو اسرائیل نے منصوبے کو حتمی شکل دینی شروع کر دی۔ حملے کے لیے اسرائیل کے پاس دو آپشنز تھے۔ پہلا یہ کہ اسرائیلی طیارے انڈیا میں آتے اور وہاں سے فیول لینے کے بعد اڑ کر پاکستان پر حملہ کرتے۔ دوسرا آپشن یہ تھا کہ اسرائیلی طیاروں کے ساتھ ہوا میں ہی ایندھن بھرنے والا طیارہ ساتھ آتا اور جہاں ایندھن ختم ہوتا وہاں اسرائیلی طیاروں کو ایندھن بھر دیتا۔ پلان کے مطابق حملے کے وقت اسرائیل کے اواکس طیارے کو پاکستانی کے ریڈار جام کرنا تھے تاکہ پاکستانی ائیرفورس ان کی راہ میں رکاوٹ نہ بنتی۔ 
اس دوران انڈیا نے اپنی طرف سے اسرائیل کو بہت منانے کی کوشش کی اسرائیل پاکستانی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کرے لیکن اسرائیل کا اصرار تھا کہ ان کے طیارے پہلے انڈیا کے اڈے پر اتریں گے اور فیول لینے کے بعد حملہ کریں گے جبکہ انڈیا اس پر تیار نہیں تھا کیونکہ اس طرح انڈیا اس حملے میں حصے دار بن جاتا اور پاکستان کے ساتھ جنگ شروع ہو سکتی تھی۔ 
آسٹریلین انسٹیٹوٹ آف اسٹریٹیجک اسٹڈیز کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی حملے کا منصوبہ بھارت کی وجہ سے 1982 میں مکمل نہ ہو سکا کیونکہ بھارت یہ تو ضرور چاہتا تھا کہ کہوٹہ تباہ کر دیا جائے لیکن وہ اس حملے کی ذمہ داری اور اس کے بعد پاکستان کے جوابی حملے کا سامنا کرنے کو تیار نہیں تھا۔ جبکہ اسرائیل چاہتا تھا کہ اس حملے کا الزام اسرائیل اور انڈیا مل کر اٹھائیں۔ دوسری جانب امریلی صدر رونالڈ ریگن کی حکومت بھی ایسے کسی حملے کی مخالف تھی۔ کیونکہ تب پاکستان افغانستان میں روسی فوجوں کے خلاف لڑ رہا تھا اس دوران اگر پاکستان پر اسرائیلی حملہ ہو جاتا تو یقیناً پاکستان روس کو چھوڑ کر انڈیا اور اسرائیل سے الجھ پڑتا جس سے افغانستان میں روس کے قدم جم جاتے۔
اسرائیلی حملے کے منصوبے پر آخری مہر پاکستان کی حکومت نے تب لگا دی جب پاکستانی میراج طیاروں نے اسرائیل کی صحرائے نجف میں موجود دیمونہ نیوکلئیر تنصیبات تک پہنچ جانے کی ایک کامیاب کوشش کرتے ہوئے اسرائیل کو ایک واضح پیغام دیا جو کہ سفارتی ذرائع سے بھی اسرائیلی حکومت تک پہنچا دیا گیا کہ اگر کہوٹہ پر حملہ ہوا تو پاکستان اسرائیل کی دیمونہ ایٹمی تنصیبات کو مٹی کا ڈھیر بنا دے گا۔
لیکن پاکستان کوئی چانس نہیں لے سکتا تھا اس لیے 1981 میں عراقی ایٹمی ری ایکٹر پر حملے کے بعد پاکستان کے صدر ضیا الحق نے پاکستان ائیرفورس کے ہیڈکوارٹرز کو اسرائیلی حملے کو ذہن میں رکھتے ہوئے پلانز بنانے کی ہدائت کی۔ جس کے بعد پاکستان کے ائیر چیف نے ائیر ٹاسکنگ آرڈرز جاری کرتے ہوئے ائیرڈیفنس چیف کو کہوٹہ کی حفاظت کے لیے پلانز بنانے کا حکم جاری کیا اور ساتھ ہی اسرائیلی دیمونہ ری ایکٹر پر حملے کا پلان بنانے کا بھی حکم دیا۔ جس کے بعد ائیر ہیڈکوارٹرز چکلالہ اسلام آباد میں ایک خاص آپریشنز روم بنا دیا گیا جس میں ائیرڈیفنس کی ساری صورتحال کو مانیٹر کیا جاتا تھا۔ 10 جولائی 1982 کو پاکستان ائیرفورس نے اسرائیل کی دیمونہ ایٹمی تنصیبات پر میراج طیاروں کی مدد سے حملے کی صلاحیت کا مظاہرہ کیا اور 1983 میں ایف 16 طیاروں کی آمد کے بعد انہیں بھی اس اسپیشل اسٹرائیک فورس میں شامل کر لیا گیا۔ 
اس سارے پس منظر میں 13 مئی 1998 کو انڈیا کے ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان کو بہت سخت خدشہ تھا کہ اسرائیل اور انڈیا اپنے سابقہ پلان کے تحت پاکستانی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کر سکتے ہیں۔ لہٰذا پاکستان ائیرفورس انتہائی زیادہ الرٹ حالت میں تھی۔ سفارتی سطح پر ٹینشن اس قدر زیادہ تھی کہ بلوچستان میں راس کوہ ٹیسٹ سائٹ پر اڑتے ہوئے ایک پاکستانی ایف 16 طیارے کو گہرے بادلوں کی وجہ سے زمینی دستوں نے اسرائیلی طیارہ سمجھ لیا اور اس سے پہلے کہ اس چیز کو پاکستان ائیرفورس کنفرم کرتی یہ خبر امریکہ میں پاکستانی سفیر تک پہنچ چکی تھی جس نے خفیہ طور پر اسرائیلی سفارت خانے کو انتہائی سخت پیغام بھیجا جس پر امریکہ میں اسرائیلی سفیر کو پبلک میں وضاحت کرنا پڑی کہ ہمارا پاکستان پر حملے کا کوئی پلان نہیں ہے۔ 
اسی دن اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر احمد کمال نے سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں مصدقہ اطلاعات ہیں کہ بھارت اور اسرائیل پاکستان کی ایٹمی تنصیبات پر حملے کی خواہش رکھتے ہیں اور اگر ایسا ہوا تو پاکستان کا جواب انتہائی سخت اور عالمی امن کے لئے انتہائی نقصان دہ ہو گا۔ 
اس کے بعد جیسے ہی پاکستان نے اپنے جوابی ایٹمی دھماکوں کا فیصلہ کیا تو پاکستان ائیرفورس کو چاغی کے ساتھ ساتھ کہوٹہ خوشاب فتح جنگ نیلور چشمہ اور کراچی کی ایٹمی تنصیبات کی فضائی نگرانی کی بھی اضافی ذمہ داری دے دی گئی۔
آپریشن بیدار 98:
پاکستان کے ایٹمی دھماکوں سے پہلے پاکستانی ہوائی حدود کی مسلسل نگرانی کو آپریشن بیدار کا نام دیا گیا۔ جس میں چاروں جانب نگرانی کے لیے چار سیکٹرز تشکیل دئیے گئے جنہیں اسلام آباد پشاور سرگودھا کوئٹہ اور کراچی سے کنٹرول کیا جا رہا تھا۔ 
نمبر 6 سکواڈرن جو کہ سی 130 طیاروں سے لیس تھا جس کا کام سامان پہنچانا تھا اس نے اس مشن کے دوران 71 مختلف فلائٹس میں 12،66،615 پاؤنڈ سامان چاغی پہنچایا۔
نمبر 7 ٹیکٹیکل اٹیک سکواڈرن جو کہ میراج طیاروں سے لیس تھا اسے مسرور ائیر بیس کراچی سے شہباز ائیر بیس جیکب آباد بلوچستان منتقل کر دیا گیا تاکہ وہ چاغی کے ایریا میں چوبیس گھنٹے ائیر ڈیفنس ڈیوٹی دے سکے۔
نمبر 9 ملٹی رول سکواڈرن جو کہ ایف 16 طیاروں سے لیس تھا اسے سرگودھا سے ہٹا کر سمنگلی ائیر بیس کوئٹہ بھیج دیا گیا تاکہ بلوچستان کے ایریا کو کوور کیا جا سکے اور رات کو ان علاقوں میں پہرہ دیا جا سکے۔
نمبر 11 سکواڈرن جو کہ ایف 16 طیاروں سے لیس تھا اسے 24 مئی کو سرگودھا سے ہٹا کر جیکب آباد بلوچستان بھیج دیا گیا۔
نمبر 14 سکواڈرن کے ایف 7 طیاروں کو چکلالہ ائیر بیس بھیج کر کہوٹہ کے علاقے کی حفاظت کا مشن دیا گیا۔
نمبر 17 سکواڈرن کے ایف 6 طیاروں کو پاکستان کے بارڈرز کے ساتھ ساتھ ہوائی پہرے داری اور گشت لگانے کی ذمہ داری دی گئی۔
اسی کے ساتھ پاکستان ائیرفورس کے پاس موجود تمام ریڈار یونٹس کو اس طرح پھیلایا گیا کہ ایٹمی تنصیبات اور ایٹمی دھماکوں کی ٹیسٹ سائٹ کے آس پاس ایک مکمل گھیرا بن گیا۔ 
اس سارے مشن کے دوران دالبندین ائیر پورٹ نے بہت شہرت حاصل کی جو کہ چاغی سائٹ سے صرف 30 کلو میٹر دور تھا اور تمام سامان اسی چھوٹے سے ائیرپورٹ پر اتارا جاتا تھا
پاکستان کا ایٹم بم مختلف حصوں کی شکل میں دو سی 130 طیاروں کے ذریعے دالبندین پہنچا تھا۔ ان سی 130 طیاروں کو پاکستانی حدود کے اندر بھی پاکستان کے ایف 16 طیاروں نے اپنے حفاظتی حصار میں لے رکھا تھا جو فضا سے فضا میں مار کرنے والے میزائیلوں سے لیس تھے جبکہ اس دوران پاکستان انڈیا بارڈر کے ساتھ ساتھ ایف 7 طیارے میزائیلوں سے لیس چوبیس گھنٹے گشت لگاتے رہے تھے تاکہ کوئی بھی بیرونی طیارہ ہماری حدود میں داخل نہ ہونے پائے۔ 
یہ مشن اس قدر سیکرٹ تھا کہ یہ تک سوچا گیا کہ اگر ایٹم بم لے جانے والا طیارہ اغوا ہو گیا تو کیا ہو گا۔ جس پر ایف 16 کے پائلٹوں کو ایک خفیہ آرڈر جاری کیا گیا کہ اگر ایٹم بم والا سی 130 ہائی جیک ہو جائے یا پاکستانی حدود سے باہر جانے کی کوشش کرے تو بنا کچھ سوچے اسے ہوا میں ہی تباہ کر دیں۔ اور اس دوران ایف 16 طیاروں کے ریڈیو آف کروا دئیے گئے تاکہ مشن کے دوران انہیں کوئی بھی کسی بھی قسم کا حکم نہ دے سکے۔ پائلٹوں کو یہ بھی کہہ دیا گیا تھا کہ ان کے آرڈرز فائنل ہیں۔ اگر مشن کے دوران انہیں ائیر چیف بھی آرڈرز بدلنے کا حکم دے تو اسے انکار کر دیں۔ 
جب 30 مئی 1998 کو پاکستان کے چھٹے ایٹمی دھماکے سے زمین کانپی تو آپریشن بیدار 98 بھی کامیابی کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچا۔
گروپ کیپٹن حسیب پراچہ 
جو کہ پاکستان کے ایف 16 طیاروں کے بہترین پائلٹ اور سب سے زیادہ تجربہ کار پائلٹ ہیں۔ یہ پہلے سرگودھا میں سکواڈرن کمانڈر تھے جبکہ اب خبر سننے میں آ رہی ہے کہ امریکہ سے خریدے گئے نئے ایف 16 طیاروں کے بیس کی کمانڈ ان کو دی جا رہی ہے۔ حسیب پراچہ ایف 16 کی اس فارمیشن کو لیڈ کر رہے تھے جس نے اپنی نگرانی میں ایٹم بم چاغی تک پہنچایا تھا۔
‪#‎Striker‬

Monday, September 22, 2014

Shall we over use the hand held devices? Or even the lap tops?

I know it seems long but worth reading 👍

September 21, 2014

Steve Jobs Didn't Let His Kids Use iPhones Or iPads: Here's Why



Steve Jobs is a name which is synonymous with cutting edge, innovative and groundbreaking technology.

So it may come as something as a surprise to learn Apple's former CEO didn't believe in letting his kids use some of his company's greatest products – the iPhone and the iPad.

And it's not because the Apple godhead was a closet Samsung fan either.

Jobs, who died in 2011, may have had an instinctive flair for technology but he was a low tech parent who firmly believed in restricting his children's access to electronic devices.

"We limit how much technology our kids use at home," said Jobs way back in 2010, expressing growing concerns about his children's gadget use.

As all modern parents know, iPhones and iPads are extremely appealing to children. These little hand-held devices are state-of-the-art toys. Surrogate parents almost, capable of entertaining, distracting, and pacifying children during school holidays and on long car journeys when mom and dad's attentions are focused elsewhere.

Yet instead of thanking Apple for these extremely convenient parent assistants, should we actually be concerned about the potential harm they may be inflicting upon our youngsters?

Steve Jobs certainly appeared to think so. In a New York Times article published this week, journalist Nick Bilton recalls how he once put it to Jobs that his kids must love the iPod, but to his surprise Jobs replied, "They haven't used it. We limit how much technology our kids use at home."

"I'm sure I responded with a gasp and dumbfounded silence. I had imagined the Jobs's household was like a nerd's paradise: that the walls were giant touch screens, the dining table was made from tiles of iPads and that iPods were handed out to guests like chocolates on a pillow. Nope, Mr. Jobs told me, not even close."

And Jobs wasn't the only technological guru who had substantial concerns about the long-term effects of kids engaging with touch-screen technology for hours on end.

Chris Anderson, former editor of Wired, also believes in setting strict time limits and parental controls on every device at home.

"My kids accuse me and my wife of being fascists. They say that none of their friends have the same rules. That's because we have seen the dangers of technology first hand. I've seen it in myself, I don't want to see that happen to my kids."

Researchers at the University of California Los Angeles recently published a study which demonstrated that just a few days after abstaining from using electronic gadgets, children's social skills improved immediately.

Which is definitely food for thought considering recent research showed that an average American child spends several hours  daily using smart-phones and other electronic screens.

Jobs was undoubtedly a genius but he didn't get that way through staring at screens and playing Angry Birds until the early hours or constantly updating his Facebook account.

Walter Isaacson, the author of Steve Jobs, spent a lot of time at the Apple co-founder's home and confirmed that face-to-face family interaction always came before screentime for Jobs.

"Every evening Steve made a point of having dinner at the big long table in their kitchen, discussing books and history and a variety of things. No one ever pulled out an iPad or computer. The kids did not seem addicted at all to devices."

So the next time the advertising department at Apple, Samsung, or any other major technological corporation attempt to sublimely convince you that life is somehow lacking without their latest little device, remember that the man who started it all, believed somewhat differently.


Read more at http://www.inquisitr.com/1468612/steve-jobs-didnt-let-his-kids-use-iphones-or-ipads-heres-why/#oowaBYpa9S0oJrIy.99
 Sent from my BlackBerry® Smartphone provided by Ufone