Qualification: BSc. Foods & Sciences
Qualification: B.E. / Diploma holder in Mechanical
Email: hr@ahmedfood.com.pk
This is to clarify to our all visitor and members that, we obey all Pakistani Rules and Regulations which is implemented in
We can provide you all type of Pakistani best Human Resource Skilled and Unskilled for all over the world and specially for Arab countries. If you required any type of Human Resource you can send us email at : joinpakistan@gmail.com We will do our best to satisfy your needs according to your requirement.
If you required a job or if you are searching for a good employee please contact us at : joinpakistan@gmail.com
عرصہ ہواایک افسانہ پڑھا تھا، یہ میاں بیوی اور تین بچوں پر مشتمل گھرانے کی کہانی تھی، جو جیسے تیسے زندگی گھسیٹ رہا تھا۔ جو جمع پونجی تھی وہ گھر کے سربراہ کے علاج معالجے پر لگ چکی تھی، مگر وہ اب بھی چارپائی سے لگاہوا تھا، آخر اسی حالت میں ایک روز بچوں کو یتیم کرگیا۔ رواج کے مطابق تین روز تک پڑوس سے کھانا آتا رہا، چوتھے روز بھی وہ مصیبت کا مارا گھرانہ کھانے کا منتظر رہا مگر لوگ اپنے اپنے کام دھندوں میں لگ چکے تھے، کسی نے بھی اس گھر کی طرف توجہ نہیں دی۔ بچے باربار باہر نکل کر سامنے والے سفیدمکان کی چمنی سے نکلنے والے دھویں کو دیکھتے، وہ سمجھ رہے تھے کہ ان کے لیے کھانا تیار ہورہا ہے، جب بھی قدموں کی چاپ آتی انہیں لگتا کوئی کھانے کی تھالی اٹھائے آرہا ہے مگر کسی نے بھی ان کے دروازے پر دستک نہ دی۔ ماں تو پھر ماں ہوتی ہے، اس نے گھر سے روٹی کے کچھ سوکھے ٹکڑے ڈھونڈ نکالے، ان ٹکڑوں سے بچوں کو بہلاپھسلاکر سلادیا۔ اگلے روز پھر بھوک سامنے کھڑی تھی، گھر میں تھا ہی کیا جسے بیچا جاتا، پھر بھی کافی دیر کی ''تلاش'' کے بعد دوچار چیزیں نکل آئیں، جنہیں کباڑیے کو فروخت کرکے دو، چار وقت کے کھانے کا انتظام ہوگیا۔ جب یہ پیسے بھی ختم ہوگئے تو پھر جان کے لالے پڑگئے، بھوک سے نڈھال بچوں کا چہرہ ماں سے دیکھا نہ گیا، ساتویں روز بیوہ ماں خود کو بڑی سی چادر میں لپیٹ کر محلے کی پرچون کی دکان پر جاکھڑی ہوئی، دکان دار دوسرے گاہکوں سے فارغ ہوکر اس کی طرف متوجہ ہوا، خاتون نے ادھار پر کچھ راشن مانگا تو دکان دار نے نہ صرف صاف انکار کردیا، بلکہ دوچارباتیں بھی سنا دیں۔ اسے خالی ہاتھ ہی گھر لوٹنا پڑا۔ ایک تو باپ کی جدائی کا صدمہ اوپر سے مسلسل فاقہ، 8سالہ بیٹے کی ہمت جواب دے گئی اور وہ بخار میں مبتلاہوکر چارپائی پر پڑگیا، دوادارو کہاں سے ہو، کھانے کو لقمہ تک نہیں تھا، چاروں گھر کے ایک کونے میں دبکے پڑے تھے، ماں بخار سے آگ بنے بیٹے کے سر پر پانی کی پٹیاں رکھ رہی تھی، جبکہ پانچ سالہ بہن اپنے ننھے منے ہاتھوں سے بھائی کے پاؤں دبارہی تھی، اچانک وہ اٹھی، ماں کے پاس آئی اور کان سے منہ لگاکر بولی ''اماں!بھائی کب مرے گا؟'' ماں کے دل پر تو گویا خنجر چل گیا، تڑپ کر اسے سینے سے لپٹا لیا اور پوچھا ''میری بچی، تم یہ کیا کہہ رہی ہو؟'' بچی معصومیت سے بولی ''ہاں اماں! بھائی مرے گا تو کھانا آئے گا ناں!'' اگر ہم اپنے پاس پڑوس میں نظر دوڑائیں تو اس طرح کی ایک چھوڑ، کئی کہانیاں بکھری نظر آئیں گی۔ بہت معذرت کے ساتھ کہہ رہا ہوں، ہمارا معاشرہ مردہ پرست ہوچکا ہے، زندگی میں کوئی نہیںپوچھتا مگر دم نکلتے وقت ہونٹوں پر دیسی گھی لگادیا جاتا ہے تاکہ لوگ سمجھیں بڑے میاں دیسی گھی کھاتے کھاتے مرے ہیں۔ غالباً منٹو نے لکھا ہے کہ ایک بستی میں کوئی بھوکا شخص آگیا، لوگوں سے کچھ کھانے کو مانگتا رہا مگر کسی نے کچھ نہیں دیا، بے چارا رات کو ایک دکان کے باہر فٹ پاتھ پر پڑگیا، صبح آکر لوگوں نے دیکھا تو وہ مرچکا تھا، اب ''اہل ایمان'' کا ''جذبہ ایمانی'' بیدار ہوا، بازار میں چندہ کیا گیا اور مرحوم کے ایصال ثواب کے لیے دیگیں چڑھادی گئیں، یہ منظر دیکھ کر ایک صاحب نے کہا ''ظالمو! اب دیگیں چڑھا رہے ہو، اسے چند لقمے دے دیتے تو یہ یوں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر نہ مرتا۔'' پچھلے دنوں ایک تاجر نے ایک مزار پر 10لاکھ روپے مالیت کی چادر چڑھائی، جبکہ مزار کے سامنے کے محلے میں درجنوں ایسے بچے گھوم رہے ہوتے ہیں جنہوںنے قمیص پہنی ہوتی ہے تو شلوار ندارد اور شلوار ہے تو قمیص نہیں۔ حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی فرمایا کرتے تھے تم جو چادریں قبروں پر چڑھاتے ہو اس کے زندہ لوگ زیادہ حق دار ہیں۔ ایک شخص رکے ہوئے بقایاجات کے لیے بیوی بچوں کے ساتھ مظاہرے کرتا رہا، حکومت ٹس سے مس نہ ہوئی، تنگ آکر اس نے خودسوزی کرلی تو دوسرے ہی روز ساری رقم ادا کردی گئی۔ اسی طرح ایک صاحب کے مکان پر قبضہ ہوگیا، بڑی بھاگ دوڑ کی مگر کوئی سننے کے لیے تیار نہیں ہوا، اسی دوران دفتر کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اسے دل کا دورہ پڑا، جو جان لیوا ثابت ہوا، پولیس نے پھرتی دکھائی اور دوسرے ہی دن مکان سے قبضہ ختم کرادیا۔ فائدہ؟ کیا اب اس مکان میں اس کا ہم زاد آکر رہے گا؟ پاکستان میں دولت کی بنیاد پر طبقاتی تقسیم خطرناک حد تک پہنچ چکی ہے، ہوس پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام غریب آدمی کا خون نچوڑنے کے بعد اب متوسط طبقے کو بھی پچھاڑ چکا ہے، اس معاملے پر ذرا آگے چل کر بات کریں گے، میری خواہش ہے آپ کو یہاں غریبی اور امیری کی ایک جھلک دکھا دوں تاکہ ملک میں رائج معاشی نظام کا آپ کچھ اندازہ کرسکیں۔ بہت ساری چیزیں ایسی ہیں، جنہیں گھروں میں تیار کرکے مارکیٹ میں سپلائی کیا جاتا ہے، یہاں کراچی کے علاقے اورنگی ٹاؤن کے کئی گھروں میں اگربتیاں بنائی جاتی ہیں، چوںکہ اس کی تیاری میں پاؤڈر استعمال ہوتا ہے، اس لیے یہ لوگ پنکھا چلاسکتے ہیں اور نہ کھلی جگہ میں بیٹھ سکتے ہیں، یہ کیمیکل منہ اور ناک کے ذریعے ان کے جسم میں داخل ہوکر جگر اور پھیپھڑوں کے امراض کا بھی سبب بنتا ہے۔ 100اگربتیاں بنانے کا معاوضہ کچھ دن پہلے بڑھ کر 5روپے ہوا ہے، عموماً گھر کے سارے افراد مل کر یہ کام کرتے ہیں، اگر وہ زیادہ زور لگائیں تب بھی ہزار، پندرہ سو ہی اگر بتیاں بناسکتے ہیں، کیا اس مہنگائی کے دور میں اس آمدن سے گھر چلایاجاسکتا ہے؟ بعض لوگ کہتے ہیں یہ سارا تقدیر کا چکر ہے، اس لیے پیسے کی کمی بیشی پر بات نہیں کرنی چاہیے۔ ٹھیک ہے امیری اور غریبی اللہ کی طرف سے ہے، مگر اللہ نے یہ تو نہیں کہا کہ تم محنت مزدوری کے معاوضے کم اور چیزوں کو مہنگا کردو۔ اب ذرا امیری کی بھی ایک جھلک دیکھتے جائیں، ایک انگریزی روزنامے کے سنڈے میگزین میں شادیوں پر اخراجات کے حوالے سے ایک رپورٹ چھپی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق معروف صنعت کار مرزا اشتیاق بیگ سے پوچھا گیا ان کے خاندان میں شادی کتنے میں پڑتی ہے؟ ان کا کہنا تھا 5کروڑ روپے تک خرچ ہوجاتے ہیں۔ رپورٹر نے حیرت کا اظہار کیا تو بیگ صاحب بولے، میاں شادیاں دیکھنی ہیں تو چنیوٹیوں کی دیکھو، چنیوٹیوں کی۔ یعنی 5کروڑ روپے خرچ کرنے والا بھی ''احساس کمتری'' کاشکار ہے، اس سے لگتا ہے چنیوٹی صاحبان تو شاید ایک شادی پر 15، 20 کروڑ روپے خرچ کرتے ہوںگے۔ کسی دور میں ہمارا معاشرہ غریب، متوسط اور امیر طبقے پر مشتمل ہوتا تھا، مگر اب آہستہ آہستہ درمیان کا طبقہ ختم ہوتا جارہا ہے، اس طبقے کے لیے سفید پوشی کا بھرم رکھنا بھی مشکل ہوگیا ہے، غریب لوگوں کی مدد کے لیے تو پھر بھی لوگ متوجہ ہوجاتے ہیں مگر سفید پوشوں کا مسئلہ یہ ہے کہ لوگ انہیں کھاتا پیتا سمجھتے ہیں، جبکہ یہ بے چارے انگریزی محاورے کے مطابق ''ہینڈٹو ماؤتھ'' ہوتے ہیں، اکثر لوگ جو دفاتر میں بڑے بھرم کے ساتھ آتے ہیں، کبھی ان کو تنہائی میں کریدکر دیکھیں تو آپ کو پتا چلے گا بندۂ مزدور کے اوقات کتنے تلخ ہیں۔ جس شخص کے پاس اپنا مکان ہو یا کرایہ دینے کی سکت رکھتا ہو، دو وقت کا مناسب کھانا اسے میسر ہو، سردی گرمی کے کپڑے، موسمی پھل خرید، بچوں کو تعلیم اور علاج معالجہ کراسکتا ہو، ضروری اخراجات کے بعد کچھ رقم پس انداز بھی کرلیتا ہو، عموماً ایسے شخص کو متوسط طبقے میں شمار کیا جاتا ہے۔ اگر یہی سہولتیں زیادہ بہتر طور پر حاصل ہوجائیں تو وہ امیروں کی حدود میں قدم رکھ دیتا ہے۔ متوسط طبقے کو کسی بھی معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی تصور کیا جاتا ہے، یہی معاشرے کی تہذیب وتمدن کی نمایندگی کرتے ہیں، انقلابات کی قیادت بھی ہمیشہ اسی طبقے نے کی ہے۔ متوسط طبقے کو ظالم معاشی نظام سے کیسے بچایا جاسکتا ہے؟ حکومت کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ اور خود ہم کیا کرسکتے ہیں؟ اللہ نے چاہا تو اس موضوع پر اگلی کسی نشست میں بات کریں گے۔ |
Cellular Companies Evaded Rs. 47 Billion Sales Tax, NAB Summons Cellular Companies
Posted: 11 Jul 2012 10:43 PM PDT
Cellular companies operating in Pakistan were not paying taxes for interconnection charges, since 2007 for reasons not ascertained as of now. However, it is believed that cellular companies were relying on section 65 of the Sales Tax Act, 1990 to escape from taxes on revenues they earn from interconnection charges.
It merits mentioning here that interconnection charges of 90 paisas per minute are charged from customers for cross-network calls and is paid to operator that receives call.
Federal Board of Revenue somehow didn't question the companies about non-payment of this sales tax but it was caught by FBR tax auditors in 2010.
When FBR asked these companies to pay the tax, the companies filed a case with the Commissioner Inland Revenue (CIR). The CIR told them to pay the tax, but cellular companies escalated the issue and filed an appeal in the Appellant Tribunal Inland Revenue (ATIR).
The Tribunal gave a decision in favor of interconnect charges. This was when all cellular operators appealed to the Chief Commissioner of Large Tax Unit with a plea that they were ready to pay tax from July 1, 2012, but asked him to waive the tax of the last four years, claiming the tax evasion had happened inadvertently.
Meanwhile FBR was evaluating the tax exemption application but probably it was too late as the file had hit the National Accountability Bureau table and matter came into limelight.
Admiral (retd) Fasih Bokhari, Chairman NAB, took suo moto notice and asked Chairman FBR to appear in person to explain details about defaulted amount.
Chairman FBR was also directed not to take any further action in terms of waiver of tax worth Rs 47 billion to cellular companies. Chairman NAB, along with, constituted a fact-finding committee comprising DG Operations, Director Special Operations and a senior Banking Officer of NAB to probe into the matter.
The Chairman FBR when appeared before NAB's fact-finding committee, NAB officials pointedly questioned him on grounds for considering a tax waiver to cellular companies amounting to more than 40 billion (26 billion principal amount, default surcharge and penalty) based on interconnect charges.
Initially Chairman FBR said that he is going to give waiver to cellular companies. He (Chairman FBR) tried to convince the inquiry committee that waiver is in line with the law and he was intended to grant waiver on very next day. However, once he was confronted with evidence and supporting documents, he thanked NAB for timely intervention and guidance provided to him by NAB in safeguarding the interest of national exchequer and the interest of FBR.
He accepted view point of NAB and agreed on 4-point agenda.
Yesterday NAB has summoned representatives of five major cellular companies to know their viewpoint. Reportedly, representatives of all cellular companies held a meeting yesterday to figure out how best to deal with the situation.
It is likely that cellular companies will have to eventually pay the taxes, with some concession maybe, to get the file closed.