Bismillah

Bismillah

Ayyat

Ayyat

Pakistani Human Resource available

This is to clarify to our all visitor and members that, we obey all Pakistani Rules and Regulations which is implemented in Pakistan by Pakistani Government. Our main purpose of posting and circulating data on our site is only for Pakistani nation knowledge and information. So using this data for any other purpose or misuse of data, we will not take any responsibilities of this type of activities, kindly do not use this data for any illegal activities which is prohibited by Pakistani Government, and follow the all rules of Pakistani Government about Cyber Crimes.

We can provide you all type of Pakistani best Human Resource Skilled and Unskilled for all over the world and specially for Arab countries. If you required any type of Human Resource you can send us email at : joinpakistan@gmail.com We will do our best to satisfy your needs according to your requirement.

If you required a job or if you are searching for a good employee please contact us at : joinpakistan@gmail.com

Charagh

Charagh

Thursday, February 21, 2013

ایک قوم اور تین نظام ہائے تعلیم
شاہنواز فاروقی

قوم ایک اکائی کا نام ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ قوم میں تنوع نہیں ہوتا، اس کے اندر ایک سے زیادہ زبانیں اور ثقافتیں نہیں ہوسکتیں۔ قوم میں یہ سب کچھ ہوتا ہے، مگر قوم کے تنوع میں ایک مرکزیت ہوتی ہے، اور اس کی کثرت میں وحدت کا جلوہ نظر آتا ہے۔ اس سلسلے میں اقبال نے بنیادی بات کہہ دی ہے۔ انہوں نے کہا ہے ؎
قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جذبِ باہم جو نہیں محفلِ انجم بھی نہیں
اقبال کے اس شعر کا ایک تاریخی تناظر ہے۔
اقبال نے جب یہ بات کہی تو قومیں مذہب سے نہیں ''اوطان'' سے وجود میں آرہی تھیں۔ وہ کہہ رہی تھیں کہ اصل چیز تو نسل، جغرافیہ اور زبان ہے۔ لیکن اقبال نے مسلمانوں کو یاد دلایا کہ وطن کا یہ تصور عہدِ حاضر کا ایک نیا اور بڑا، مگر جھوٹا خدا ہے اور مسلمان اس جھوٹے خدا کو مان سکتے ہیں نہ اس کی پوجا کرسکتے ہیں۔ انہوں نے مسلمانوں کو بتایا کہ تمہاری قومیت صرف مذہب سے وجود میں آتی ہے اور مذہب ہی تمہارے درمیان نکتۂ اشتراک ہے۔ اقبال کی یہ بات سو فیصد درست ہے۔ مگر ہم دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان میں تین بڑے نظام ہائے تعلیم کے تجربے نے مذہب کی وحدت پیدا کرنے والی قوت کو کمزور کیا ہے اور اس نے ایک قوم میں تین طرح کی شخصیتیں پیدا کردی ہیں۔ بظاہر یہ شخصیتیں ایک ہی قوم کا حصہ ہیں مگر بسا اوقات ان کے درمیان نکتۂ اتصال تلاش کرنا دشوار ہوجاتا ہے۔ نتیجہ یہ کہ ہمارا تنوع تضاد میں ڈھل گیا ہے۔ یہاں تک کہ یہ تین شخصیتیں تین متحارب دھڑوں میں تقسیم ہوگئی ہیں اور یہ ایک دوسرے کے ساتھ گفتگو تک کی روادار نہیں۔ ان کا مذہب ایک ہے مگر اس کی تعبیرات مختلف ہیں۔ ان کی تاریخ ایک ہے مگر اس کی تشریحات جدا ہیں۔
ہمارا دین زبانوں کے سلسلے میں کسی تعصب اور تنگ نظری کا قائل نہیں، اس لیے کہ وہ کہتا ہے کہ زبانوں کا اختلاف اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ مگر ہمارے یہاں انگلش میڈیم تعلیم محض زبان کا معاملہ نہیں بلکہ انگلش میڈیم تعلیم ہمارے یہاں ایک مکمل تہذیبی کائنات کی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔ اس کا اثر مذہبی شعور تک پر مرتب ہوا ہے۔ مثال کے طور پر ہمارا مذہبی لٹریچر یا تو عربی میں ہے یا فارسی میں یا پھر اردو میں۔ انگریزی میں مذہبی لٹریچر نہ ہونے کے برابر ہے۔ چنانچہ اگر کسی انگلش میڈیم طالب علم کے خاندان میں مذہبی شعور پختہ نہ ہو اور اس میں اردو کے مذہبی لٹریچر سے استفادے کا رجحان موجود نہ ہو تو طالب علم اپنی مذہبی فکر کی روایت سے کٹ کر رہ جاتا ہے۔ مذہب سے خالص انگلش میڈیم ذہن کی بے نیازی، بیگانگی اور بے زاری کا ایک پیمانہ یہ ہے کہ پاکستان کی انگریزی صحافت پر ایک نظر ڈال لی جائے۔ اس صحافت پر لبرل اور سیکولر فکر کا مکمل غلبہ ہے۔ انگریزی کے سب سے اہم اخبار روزنامہ ڈان کا مذہب سے اتنا تعلق ہے کہ وہ ہر جمعہ کو Friday Feature کے عنوان سے مذہب پر ایک مضمون شائع کردیتا ہے۔ عام طور پر یہ مضمون بھی کسی ایسے شخص کا لکھا ہوا ہوتا ہے جو عصر حاضر کو اسلام کے مطابق بنانے کے بجائے اسلام کو عصر حاضر کے مطابق بنانے کا قائل ہوتا ہے۔
ہم نے اولیول میں تاریخ کی ایسی کتابیں دیکھی ہیں جن میں ٹیپو سلطان کو Monster قرار دیا گیا ہے، دین الٰہی ایجاد کرنے والے اکبر کو مثالی حکمران کہا گیا ہے، اور اورنگ زیب عالمگیر جیسے حکمران کو مذہبی انتہا پسند کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ تاریخ کی ان کتب میں انگریزوں کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے کہ وہ تاریخ کے منظرنامے پر ''ولن'' نظر نہ آئیں۔ ہمارے انگریزی داں طبقے کے اراکین کی عظیم اکثریت کے ذہنوں میں تحریک پاکستان کا تصور یہ ہے کہ یہ تحریک اسلامی ریاست کے قیام کے بجائے مسلمانوں کی ریاست کے قیام کے لیے برپا ہوئی تھی۔ اس تحریک کا محرک اسلام نہیں تھا، بلکہ اس کا محرک مسلمانوں کا سیاسی اور اقتصادی مفاد تھا۔ قائداعظم بڑے رہنما تھے مگر وہ لبرل اور سیکولر تھے۔ اس سلسلے میں انگریزی داں طبقے کی بے ایمانی کا یہ عالم ہے کہ وہ قائداعظم کی اُن تین سو سے زیادہ تقریروں اور انٹرویوز کو نظرانداز کرتا ہے جن میں قائداعظم نے کہا کہ پاکستان کی اساس اسلام ہے اور ہماری رہنمائی کے لیے قرآن و سنت کافی ہیں، لیکن وہ قائداعظم کی 11 اگست کی اس تقریر کا حوالہ بار بار دیتا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان میں تمام مذاہب کے ماننے والوں کو اپنے مذہب پر عمل کا پورا حق ہوگا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ انگریزی داں طبقہ اس تقریر سے سیکولرازم برآمد کرتا ہے، حالانکہ یہ تقریر اسلام کی روح کے عین مطابق ہے۔ ان حقائق کو دیکھا جائے تو انگریزی داں طبقہ صرف مذہب ہی سے کٹا ہوا نہیں ہے بلکہ وہ دین اور تاریخ سے بھی بہت دور کھڑا ہوا ہے، اور جس شخص کا مذہبی اور تاریخی شعور زائل ہوجائے اس کی شخصیت کی سطحیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن مسئلہ اس سے بھی زیادہ گمبھیر ہے۔ انگریزی داں طبقہ بظاہر اپنی شخصیت اور فکر کی آفاقیت اور عالمگیریت پر بڑا نازاں ہوتا ہے، مگر اس کی آفاقیت کی حقیقت یہ ہے کہ وہ مغرب کے شاعروں، ادیبوں سے ضرور کچھ نہ کچھ واقف ہوتا ہے مگر اسے میر، غالب، اقبال، قرۃ العین حیدر، بیدی، منٹو، غلام عباس، فراق، عسکری اور سلیم احمد کی ہوا بھی نہیں لگی ہوتی۔ بلکہ اس کے نزدیک اردو یا اردو ادب سے واقفیت ایک طرح کا عیب ہوتا ہے۔ آفاقیت اچھی چیز ہے مگر یہ مقامیت سے بے نیاز نہیں ہوتی، بلکہ جس آفاقیت کی جڑیں مقامیت میں پیوست نہ ہوں وہ جعلی ہوتی ہے، اور جعلی آفاقیت کے حامل لوگ بھی جعلی ہوتے ہیں۔ اس طبقے کو گیتوں اور موسیقی کا بڑا شوق ہے، مگر اس کے گیتوں اور موسیقی سے یا تو معنی غائب ہیں یا ان کا ہماری تہذیب سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کے گیتوں اور موسیقی میں ایک احساس ضرور ہے مگر اس احساس میں ''صورت'' تلاش کرنا محال ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ اس طبقے نے انگریزی کو ذہانت اور علم کی علامت بنایا ہوا ہے۔ حالانکہ اس طبقے نے گزشتہ ڈیڑھ سو سال میں نہ کوئی مذہبی فکر پیدا کی ہے، نہ بڑا ادیب اور بڑا آرٹ پیدا کیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ طبقہ خود اجنبی ہے مگر ملک کی آبادی کی عظیم اکثریت کو یہ اس طرح دیکھتا ہے جیسے یہ آبادی اجنبیوں کی آبادی ہو۔
دینی مدارس کے طلبہ انگلش میڈیم طلبہ کی ضد ہیں۔ ان طلبہ کا مذہبی شعور پختہ ہوتا ہے مگر اس شعور کے تین بڑے نقائص ہیں۔ ایک یہ کہ یہ شعور مذہب کو ایک تخلیقی تجربہ بنانے کے بجائے اسے اوڑھ کر بیٹھ گیا ہے۔ پھر اس طبقے کے مذہب میں خارج پرستی بھی بہت ہے۔ اس شعور کا دوسرا بڑا نقص یہ ہے کہ اس نے دین کو دنیا پر منطبق کرنے کے بجائے دنیا سے الگ تھلگ کرکے دین کو ایک تہذیبی قوت بنانے کے بجائے اسے ایک قانونی یا فقہی حقیقت بنادیا ہے۔ اس طبقے کے شعور کا تیسرا بڑا نقص یہ ہے کہ بالائی طبقہ دینی طبقے کو حقارت سے دیکھتا ہے تو دینی طبقے کے دل میں بھی بالائی طبقے کے لیے کم حقارت نہیں ہے۔ حالانکہ دینی طبقے کے ہر فرد کا مقام ایک ڈاکٹر کی طرح ہے۔ ڈاکٹر کو مریض سے خواہ کتنی ہی شکایت کیوں نہ ہو وہ اس سے لاتعلق ہوکر نہیں بیٹھ سکتا۔ اصولی اعتبار سے دیکھا جائے تو مذہبی طبقے کی ذمہ داری تھی کہ وہ انگلش میڈیم طبقے سے اس کی سطح اور اس کے مذاق کے مطابق کلام کرتا، خواہ اسے اس کے لیے ایک نیا علم کلام ہی کیوں نا ایجاد کرنا پڑتا۔ مگر انگلش میڈیم نے دینی مدارس سے برآمد ہونے والے طبقے کو ''جنونی'' قرار دے کر مسترد کردیا تو دینی طبقے نے بھی بالائی طبقے کو گمراہ، سیکولر اور لبرل قرار دے کر اپنی نظروں سے گرا دیا۔ تجزیہ کیا جائے تو ہمارے دینی مدارس کے طلبہ کے مزاج میں آفاقیت نام کو بھی نہیں ہے۔ یہ طبقہ اپنے مسلک اور اپنے مکتب کے کنویں میں قید ہے اور اسی کو ساری دنیا سمجھتا ہے۔ اس طبقے کا تہذیبی اور ثقافتی شعور اور تہذیبی و ثقافتی حس شرمناک حد تک کمزور ہے۔ اس طبقے کی اکثریت کو شعر و ادب کی ہوا بھی نہیں لگی، اور ہوا کیسے لگے! یہ طبقہ شعر و ادب کو بھی خلافِ اسلام سمجھتا ہے۔ یہ جہالت ہے اور اکثر مذہبی لوگوں کو ہم نے اپنی جہالت پر ناز کرتے دیکھا ہے۔ یہ طبقہ کتنا مسلک اور مکتب پرست ہے اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ افغانستان میں روس کے خلاف جہاد ہورہا تھا اور اس جہاد میں جماعت اسلامی کے سوا کوئی مذہبی طبقہ شریک نہ تھا۔ آج افغانستان میں امریکہ کے خلاف جہاد ہورہا ہے اور بعض مسالک کے لوگ اس سے بے نیاز کھڑے ہیں۔
انگلش میڈیم اور دینی مدارس کے طلبہ کے درمیان اردو میڈیم کے طلبہ کھڑے ہوئے ہیں۔ ان طلبہ کی بڑی تعداد دو نیم شخصیت یا Split Personality کے مسئلے کا شکار ہوتی ہے۔ تاہم گزشتہ ڈیڑھ سو سال میں سب سے بہتر انسانی مواد یا Human Content اسی طبقے سے فراہم ہوا ہے۔ اقبالؒ اور مولانا مودودیؒ اس طبقے کی نمونہ شخصیت (Model Personality) ہیں۔ بدقسمتی سے لوگ اردو کو صرف ایک زبان کی حیثیت سے دیکھتے ہیں۔ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ اردو ہمارے مذہب کی زبان بن گئی ہے۔ اردو ہماری تہذیبی زبان ہے۔ اردو ہماری تاریخی شخصیت کے اظہار کی زبان ہے۔ اردو کے مزاج میں اسلام کی آفاقیت جذب ہوگئی ہے۔ اردو کے مزاج میں انگریزی کی طرح کی بین الاقوامیت ہے۔ اردو تین بڑی زبانوں کی لسانی اہلیت کی حامل ہے۔ چنانچہ جو شخص اردو کی کائنات میں زندگی بسر کرتا ہے اس پر اردو کے یہ تمام اثرات کچھ نہ کچھ مرتب ہوکر رہتے ہیں۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ اکبرالہٰ آبادی، اقبال اور مولانا مودودی اردو کی کائنات کے ستارے ہیں مگر انہوں نے مغرب کو جس طرح سمجھا انگریزی دان طبقے سے اس کی معمولی مثال بھی پیش نہیں کی جا سکتی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص اپنی تہذیب کو سمجھتا ہے وہی دوسروں کی تہذیب کو بہتر انداز میں سمجھ سکتا ہے۔ کہنے کو دینی مدارس کے طلبہ بھی اردو ہی کی روایت میں سانس لیتے ہیں مگر ان کی مسلک اور مکتب پرستی نے انہیں اردو کی آفاقیت اور بین الاقوامیت سے مستفید نہیں ہونے دیا۔ بلاشبہ اردو کی یہ خوبیاں اس کی ''لسانی خوبیاں'' نہیں ہیں، اس میں یہ خوبیاں اسلام اور اسلامی تہذیب کی ترجمان ہونے کی وجہ سے پیدا ہوئیں۔
بہرحال ایک قوم کو تین نظام ہائے تعلیم نے ٹکڑوں میں بانٹ دیا ہے اور اس سے ایک جانب قوم کی تخلیقی صلاحیتیں ضائع ہورہی ہیں، دوسری جانب ہم قومی وحدت ِفکر سے محروم کھڑے ہیں اور تیسری جانب نظام ہائے تعلیم قوم کے مختلف حصوں میں تعلق پیدا کرنے کے بجائے ان میں ایک دوسرے کے لیے لاتعلقی پیدا کررہے ہیں۔
شاهنواز فاروقى
 

خاندان کا ادارہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار کیوں ہے؟


…شاہنواز فاروقی…
ایک وقت تھا کہ خاندان ایک مذہبی کائنات تھا۔ ایک تہذیبی واردات تھا۔ محبت کا قلعہ تھا۔ نفسیاتی حصار تھا۔ جذباتی اور سماجی زندگی کی ڈھال تھا… ایک وقت یہ ہے کہ خاندان افراد کا مجموعہ ہے۔ چنانچہ جون ایلیا نے شکایت کی ہے   ؎
مجھ کو تو کوئی ٹوکتا بھی نہیں
یہی ہوتا ہے خاندان میں کیا
ٹوکنے کا عمل اپنی نہاد میں ایک منفی عمل ہے۔ مگر آدمی کسی کو ٹوکتا بھی اسی وقت ہے جب اُس سے اس کا ''تعلق'' ہوتا ہے۔ جون ایلیا کی شکایت یہ ہے کہ اب خاندان سے ٹوکنے کا عمل بھی رخصت ہوگیا ہے۔ یہی خاندان کے افراد کا مجموعہ بن جانے کا عمل ہے۔ لیکن خاندان کا یہ ''نمونہ'' بھی بڑی نعمت ہے۔ اس لیے کہ بہت سی صورتوں میں اب خاندان افراد کا مجموعہ بھی نہیں رہا۔ اسی لیے شاعر نے شکایت کی ہے   ؎
اک زمانہ تھا کہ سب ایک جگہ رہتے تھے
اور اب کوئی کہیں کوئی کہیں رہتا ہے
بعض لوگ اس طرح کی باتوں کو مشترکہ خاندانی نظام کے ٹوٹ جانے کا سانحہ سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسلام مشترکہ خاندانی نظام پر نہیں صرف خاندان پر اصرار کرتا ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام ٹوٹ رہا ہے تو اپنی خرابیوں کی وجہ سے ٹوٹ رہا ہے اور اسے ٹوٹ ہی جانا چاہیے۔ اور اب اگر لوگ الگ گھر بناکر رہ رہے ہیں تو اس میں اعتراض کی کون سی بات ہے! لیکن مسئلہ یہ نہیں ہے کہ اب کوئی کہیں، کوئی کہیں رہتا ہے، بلکہ  یہ ہے کہ جو جہاں بھی رہتا ہے محبت کے ساتھ دوسرے سے نہیں ملنا چاہتا۔ ایک وقت تھا کہ لوگ کسی ضرورت کے تحت خاندان سے سیکڑوں بلکہ ہزاروں میل دور جاکر آباد ہوجاتے تھے، مگر یہ فاصلہ صرف جغرافیائی ہوتا تھا… نفسیاتی، ذہنی اور جذباتی نہیں ہوتا تھا۔ اب لوگ ایک گھر میں رہتے ہیں تو ان کے درمیان ہزاروں میل کا نفسیاتی، جذباتی اور ذہنی فاصلہ ہوتا ہے… اور یہی فاصلہ اصل خرابی ہے، یہی فاصلہ خاندان کی ٹوٹ پھوٹ کی علامت ہے، یہی ہمارے عہد کا ایک بڑا انسانی المیہ ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس المیے کی وجہ کیا ہے؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ خاندان اپنی اصل میں ایک مذہبی تصور ہے۔ کائناتی سطح کے مفہوم میں مرد اللہ تعالیٰ کی ذات اور عورت اللہ تعالیٰ کی صفت کا مظہر ہے، چنانچہ شادی کا ادارہ ذات اور صفت کے وصال کی علامت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں شادی کی غیرمعمولی اہمیت ہے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کو نصف دین کہا ہے۔ مرد اور عورت کے تعلق کی اسی نوعیت کی وجہ سے اسلام طلاق کو سخت ناپسند کرتا ہے، کیونکہ اس سے انسانی سطح پر ذات اور صفت میں علیحدگی ہوجاتی ہے۔ لیکن مرد اور عورت کے اس تعلق کا مرکز اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ اسی ذات نے انسانوں کو ''جوڑے'' کی صورت میں پیدا کیا۔ اسی ذات نے زوجین کے درمیان محبت پیدا کی۔ اسی ذات نے بچوں کی پیدائش کو عظیم نعمت اور رحمت میں تبدیل کیا اور اسی ذات نے بچوں کی پرورش پر بے پناہ اجر رکھا۔ مذہبی معاشروں میں خاندان کا یہ تصور انسانوں کے شعور میں پوری طرح راسخ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ خاندان کا ادارہ لاکھوں یا ہزاروں سال کا سفر طے کرنے کے باوجود بھی نہ صرف یہ کہ باقی اور مستحکم رہا بلکہ اس میں کروڑوں انسان ایک حسن و جمال اور ایک گہری رغبت بھی محسوس کرتے رہے۔ لیکن جیسے ہی خدا انسانوں کے باہمی تعلق سے غائب ہوا خاندان کا ادارہ اضمحلال، انتشار اور انہدام کا شکار ہوگیا۔
مذہب کی وجہ سے خاندان کے ادارے کی ایک تقدیس تھی۔ اس پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کا سایہ تھا۔ اس میں کائناتی سطح کی معنویت تھی جس کا کچھ نہ کچھ ابلاغ بہت کم پڑھے لکھے لوگوں تک بھی کچھ نہ کچھ ضرور ہوتا تھا۔ مذہبی بنیادوں کی وجہ سے خاندان میں ایک برکت تھی اور اس کے ساتھ اجروثواب کے درجنوں تصورات وابستہ تھے۔ لیکن خدا کے تصور کے منہا ہوتے ہی اور مذہب سے رشتہ توڑتے ہی خاندان اچانک صرف ایک حیاتیاتی، سماجی اور معاشی حقیقت بن گیا۔ یعنی انسان محسوس کرنے لگے کہ خاندان انسانی نسل کی بقا اور تسلسل کے لیے ضروری ہے۔ خاندان نہیں ہوگا تو انسانی نسل فنا ہوجائے گی۔ خاندان کے خالص حیاتیاتی تصور نے مرد اور عورت کے باہمی تعلق کو صرف جسمانی تعلق تک محدود کردیا۔ اس تعلق کی اہمیت تو بہت تھی مگر اس میں معنی کا فقدان تھا، اور اس سے کوئی تقدیس وابستہ نہ تھی۔ خدا اور مذہب سے بے نیاز ہوتے ہی انسان کو محسوس ہونے لگا کہ خاندان صرف ہماری سماجی ضرورت ہے۔ انسان ایسی حالت میں پیدا ہوتا ہے کہ اسے طویل عرصے تک ماں باپ اور دوسرے خاندانی رشتوں کی ''ضرورت'' ہوتی ہے، لیکن ضرورت ایک ''مجبوری'' اور ایک ''جبر'' ہے اور اس کی کوئی اخلاقیات نہیں۔ چنانچہ مغربی دنیا میں کروڑوں انسانوں نے اس مجبوری اور جبر کے طوق کو گلے سے اتار پھینکا۔ انسان صرف سماجی نفسیات کا اسیر ہوجاتا ہے تو اس سے ''معاشی ضرورت'' کے نمودار ہونے میں دیر نہیں لگتی، اور معاشی ضرورت دیکھتے ہی دیکھتے سماجی ضرورت کو بھی ''ثانوی ضرورت'' بنادیتی ہے۔ خاندان کے ادارے کے حوالے سے یہی ہوا۔ خاندان کے سماجی ضرورت ہونے کے تصور سے معاشی ضرورت کا تصور نمودار ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے خاندان کے ادارے کے تشخص کا نمایاں ترین پہلو بن گیا۔
خاندان کے ادارے کے حوالے سے خدا اور مذہب کے بعد سب سے زیادہ اہمیت محبت کے تصور کو حاصل ہے۔ محبت انسانی زندگی میں کتنی اہم ہے اس کا اظہار میر تقی میرؔ نے اس سطح پر کیا ہے جس سے بلند سطح کا تصور ذرا مشکل ہے۔ میرؔ نے کہا ہے  ؎
محبت نے کاڑھا ہے ظلمت سے نور
نہ ہوتی محبت نہ ہوتا ظہور
میرؔ نے اس شعر میں محبت کو پوری کائنات کی تخلیق کا سبب قرار دیا ہے۔ محبت نہ ہوتی تو یہ کائنات ہی وجود میں نہ آتی۔ محبت کے حوالے سے میرؔ کا ایک اور شعر بے مثال ہے۔ انہوں نے کہا ہے   ؎
محبت مسبّب محبت سبب
محبت سے ہوتے ہیں کارِ عجب
محبت کے ''کارِ عجب'' کرنے کی صلاحیت کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ ہر انسان ایک دوسرے سے مختلف کائنات ہوتا ہے، لیکن محبت شادی کی صورت میں دو کائناتوں کو اس طرح ایک کردیتی ہے کہ ان کے درمیان کوئی تضاد اور کوئی کش مکش باقی نہیں رہتی۔ یہ عمل معجزے سے کم نہیں، مگر محبت نے اس معجزے کو تاریخ و تہذیب کے سفر میں اتنا عام کیا ہے کہ یہ معجزہ کسی کو معجزہ ہی نظر نہیں آتا۔ بچوں کو پالنا دنیا کا مشکل ترین کام ہے۔ اس میں ماں باپ کی شخصیت کی اس طرح نفی ہوتی ہے کہ اس کا بوجھ اٹھانا آسان نہیں۔ بچوں کی پرورش ماں باپ کی نیندیں حرام کردیتی ہے، ان کا آرام چھین لیتی ہے، ان کی ترجیحات کو تبدیل کردیتی ہے۔ لیکن ماں باپ کی محبت ہر قربانی کو سہل کردیتی ہے۔ ماں باپ کے دل میں بچوں کے لیے محبت نہ ہو تو وہ بچوں کو پالنے سے انکار کردیں، یا ان کو ہلاک کر ڈالیں۔ لیکن محبت، بے پناہ مشقت کو بھی خوشگوار بنادیتی ہے اور انسان کو تکلیف میں بھی ''راحت'' محسوس ہونے لگتی ہے، پریشانی بھی بھلی معلوم ہوتی ہے، قربانی میں بھی بے پناہ لطف کا احساس ہوتا ہے۔ بچوں کو ماں باپ کی محبت کا جو تجربہ ہوتا ہے وہ ان کی شخصیت کو ایسا بنادیتا ہے کہ جب ماں باپ بوڑھے ہوجاتے ہیں تو اکثر بچے اسے لوٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ محبت ہی ہے جو بچوں ہی نہیں بڑوں کو بھی اس لائق بناتی ہے کہ وہ اپنے وقت، خوشیوں اور وسائل میں دوسروں کو شریک کریں۔ لیکن مغرب میں انسان خدا اور مذہب سے دور ہوا تو اس کے دل میں محبت کا کال پڑگیا، اور محبت کے قحط نے والدین کے لیے بچوں اور بچوں کے لیے والدین کو بوجھ بنا دیا۔ یہاں تک کہ شوہر اور بیوی بھی ایک دوسرے کو ایک وقت کے بعد ''اضافی'' نظر آنے لگے۔ مغرب کا یہ ہولناک تجربہ اب مشرق میں بھی عام ہے، یہاں تک کہ اسلامی معاشرے بھی اس سے محفوظ نہیں۔ اس سلسلے میں اسلامی اور غیر اسلامی معاشروں میں فرق یہ ہے کہ غیر اسلامی معاشروں میں خدا اور مذہب لوگوں کی زندگی سے یکسر خارج ہوچکے ہیں، جبکہ اسلامی معاشروں میں مذہب آج بھی اکثر لوگوں کے لیے ایک زندہ تجربہ ہے۔ البتہ جدید دنیا کے رجحانات کا دبائو اتنا شدید ہے کہ مسلم معاشروں میں بھی مذہب پیش منظر سے پس منظر میں چلا گیا ہے۔ چنانچہ مسلم معاشروں میں بھی خاندان کا ادارہ اضمحلال، انتشار اور انہدام کا شکار ہورہا ہے۔
مادی دنیا حقیقی خدا کے انکار تک محدود نہ رہی بلکہ اس نے دولت کی صورت میں اپنا خدا پیدا کرکے دکھایا، اور وہ معاشرے جو کبھی ''خدا مرکز'' یا God Centric تھے وہ دولت مرکز یا Money Centric بنتے چلے گئے۔ ان معاشروں میں دولت ہر چیز کا نعم البدل بن گئی۔ اس نے حسب نسب کی صورت اختیار کرلی۔ وہی شرافت اور نجابت کا معیار ٹھیری۔ اسی سے علم و ہنر منسوب ہوگئے، اسی سے انسانوں کی اہمیت کا تعین ہونے لگا، اسی نے خوشی اور غم کی صورت اختیار کرلی۔ یہاں تک کہ دولت ہی ''تعلق'' بن کر رہ گئی۔ دولت کی اس بالادستی اور مرکزیت نے معاشروں میں قیامت برپا کردی۔ مغرب کی تو بات ہی اور ہے، ہم نے اپنے معاشرے میں دیکھا ہے کہ والدین تک معاشی اعتبار سے کامیاب بچوں کو اپنے اُن بچوں پر ترجیح دینے لگتے ہیں جو معاشی اعتبار سے نسبتاً کم کامیاب ہوتے ہیں، خواہ معاشی اعتبار سے کمزور بچوں میں کیسی ہی انسانی خوبیاں کیوں نہ ہوں۔ پاکستان اور دوسرے ملکوں میں مشرق وسطیٰ جانے کا رجحان پیدا ہوا تو کروڑوں لوگ اپنے خاندانوں کو چھوڑ کر بہتر معاشی مستقبل کے لیے عرب ملکوں میں جا آباد ہوئے۔ یہ لوگ دس پندرہ اور بیس سال کے بعد لوٹے تو ان کے پاس دولت تو بہت تھی مگر وہ اپنے بچوں کے لیے تقریباً اجنبی تھے۔ یہاں تک کہ ان کی بیویوں اور ان کے درمیان بھی ''نیم اجنبی'' کا تعلق استوار ہوچکا تھا۔ انسانوں کی شخصیتوں کی جڑیں معاشیات میں اتنی گہری پیوست ہوئیں کہ ہم نے متوسط طبقے کے بہت سے بچوں کو یہ کہتے سنا کہ ہمیں ہمارے باپ نے دیا ہی کیا ہے؟ حالانکہ ان کے پاس شرافت کی دولت تھی، ایمان داری کا سرمایہ تھا، علم کی میراث تھی، تخلیقی رجحانات کا ورثہ تھا۔ لیکن انہیں ان میں سے کسی چیز کی موجودگی کا شعور نہ تھا، کسی چیز کی موجودگی کا احساس نہ تھا۔ انہیں شعور اور احساس تھا تو صرف اس چیز کا کہ ان کے پاس دولت نہیں ہے۔ کار اور کوٹھی نہیں ہے۔ بینک بیلنس نہیں ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ شادی بیاہ کے معاملات میں دولت تقریباً واحد معیار بن چکی ہے۔ اس سلسلے میں مذہبی اور سیکولر کی کوئی تخصیص نہیں۔ دولت کے حمام میں سب ننگے ہیں۔ اس کے بعد بھی لوگ سوال کرتے ہیں کہ خاندان کا ادارہ کیوں کمزور پڑرہا ہے!