Please read the attached file if cannot read the fonts.
السلام علیکم
نوٹ: میرا تعلق پاکستان سے ہے، نیچے جو کچھ میں نے لکھا ہےاسکا مقصد صرف اور صرف مجھ سمیت قوم کوصحیح اصلاح
کی طرف توجہ دلانی ہے، جن برائیوں کی طرف اشارہ کیا ہے یہ صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا کے دوسرے ممالک میں
بسے مسلمانوں میں بھی کم و بیش پائی جاتی ہیں بلکہ بہت سے ممالک کے مسلمانوں میں یہ برائیاں پاکستان کے مسلمانوں سے
بدرجہا زیادہ ہیں اور وہاں بھی عام طور پر مسلمان ان گناہوں میں خود اپنی ہی مرضی سے مبتلا ہیں کسی حکومت نےانہیں مجبور
نہیں کیا، اگردوسرے ملکوں کے مسلمانوں کی برائیوں کی اصلاح کےلیئے کچھ لکھا جائے تو لکھنے والا خواہ کتنا ہی مخلص ہو،
دوسرے ملک کے مسلمان شاید اسےبالکل پسند نہ کریں اورایسے لکھنےکو تعصب کا نام دے دیں۔ لہٰذااس پرلکھنے سے کسی کو
کوئی فائیدہ نہ ہوگا۔ برائیوں کا جو اشارہ عوام کی طرف کیا ہے اس میں خود کو بھی شامل کیا ہےکیونکہ میں بھی اس ہی عوام کا
ایک فرد ہوں۔ اسلیئےمیری تمام پاکستانیوں سے گذارش ہےکہ میری بات کو اپنی توہین نہ سمجھیں بلکہ اسےاصلاحی بات سمجھیں
اوران برائیوں سے نجات کیلئیے اپنی قیمتی رائے کا اظہار کریں تاکہ ہم ان برائیوں سے نجات حاصل کرکے حقیقی خوشحالی حاصل
کریں، برائیاں خواہ کتنی ہی شدید ہوں انہیں ختم کیا جاسکتا ہے شرط یہ ہےکہ پہلے تشخیص صحیح ہو جائے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمیں موجودہ حکومت کی طرح اکثرحکومتیں ظالم ہی ملی ہیں جو ہمیشہ عوام پر ظلم اور
عوام کے حقوق ضائع ہی کرتی چلی آئی ہیں، عوام کیلئیے جو کچھ کرنا چاہئیے تھا وہ نہیں کیا بلکہ ملک اور عوام کا
مال لوٹ کر عیاشی کر تی رہی ہیں، لیکن۔۔۔۔۔۔۔ ذرا یہ تو بتائیں کہ پاکستانی عوام کیسی ہے اور کیا کر رہی ہے؟
کیا عوام ایک دوسرے کے حقوق ادا کر رہی ہے؟
کیا عوام دن کی پانچ وقت کی فرض نمازیں ادا کر رہی ہے؟
کیا عوام میں غمی اورخوشی کےموقعوں پراللہ اوررسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قوانین اورآپکی پیاری
سنتوں کی قدر اور عظمت کی ذرا بھی کوئی جھلک نظر آتی ہے؟
کیا عوام ایمنداری سے کاروبار کر رہی ہے؟
کیاعوام بےشرمی کے کاموں سے بچ رہی ہے؟ یا کم ازکم ان گناہوں سے بچ رہی ہےجن پرہمارے ملک
کی تاریخ کی کسی بھی حکومت نے کبھی بھی ہمیں ذرہ برابر بھی مجبور نہیں کیا؟ (میرے خیال سے
ایسا کوئی گناہ نہیں ہے جس پر ہم (عوام) کسی بھی حکومت کی وجہ سے مجبور کیئے گئے ہوں)
اگر ان سب باتوں کا جواب نفی میں ہے تو پھر آخرکیا وجہ ہے کہ پاکستان کا ہرفرد دن رات بری حکومت کا رونا ہی
روتا رہتا ہے لیکن اپنے گریبان میں جھانکنے کی کسی کو کبھی بھی توفیق نہیں ہوتی، کیوں؟ پاکستانی حکومتیں بری
رہی ہیں تو کیا پاکستانی عوام کیلیئے تمام حرام اور شرمناک کام حلال ہوگئے ہیں؟ ہر گز نہیں۔
تو میرے بھائیوں اللہ کے واسطے کچھ تو اپنی سوچ بدلو اور کچھ تو انصاف کرواس سے پہلے کے بہت دیر ہوجائے۔
ایک مسلمان قوم ہونے کی بنا پر ہمیں یہ ہرگز نہیں بھولنا چاہیئے کہ ہمارا مسلمان ہونا یہ کوئی اللہ پرنعوذ بااللہ احسان
نہیں ہے اور ظالم حکومتوں کا ہم پر ظلم، ہمیں اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قوانین سے مبراء نہیں کردیتا،
خاص طور پران گناہوں سے جن میں کسی بھی حکومت نے ہمیں ذرہ برابر بھی مجبور نہیں کیا۔ اللہ اور ہمارے پیارے
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا ہے کہ برے حالات ہمارے اپنے گناہوں کی وجہ سے آتے ہیں، پچھلی جتنی بھی
قوموں پرعذاب آیا ہے وہ صرف اورصرف عوام کےگناہوں کی وجہ سے ہی آیا ہے، اسلئیے اپنے جن شرم ناک گناہوں
سے ہم (عوام) نے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ اپنے خاندانوں اورگھروں کو سجایا ہوا ہے ان کا ذمہ دار حکومت کو ٹہرانا
ایک بدترین اورانتہائی درجہ کا گھٹیل اور گمراہ ترین فعل ہے، ہم آخرکس کو دھوکہ دے رہے ہیں؟ اللہ تودھوکے میں
آنے والا ہے نہیں، درحقیقت ہم نے خود اپنے آپکو دھوکےمیں ڈالا ہوا ہے۔
پاکستان کےحالات کےاچھے ہونے کی صرف اورصرف ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالٰی فیصلہ کرلیں
کہ حالات صحیح ہوجائیں، جب تک اللہ تعالٰی کا فیصلہ نہیں ہوگا اس وقت تک حالات صحیح ہونے کا سوال ہی پیدا
نہیں ہوتا خواہ پاکستان کی مٹی سونا ہی کیوں نہ بن جائے۔ لہٰذا اگرہمیں محب وطن ہونے کا سچا دعویٰ ہے اورپاکستان
کی ذرا بھی قدرہےتو دن رات اپنا قیمتی وقت حکومت کی برائیوں میں برباد کرنیکے بجائے یہ غورکرنا چاہیئے کہ آخر
اللہ تعالٰی کا فیصلہ ہمارے حق میں کیوں نہیں آرہا، اگرہم ایمانداری سےسوچیں اورغورکریں تو ہمیں صاف نظرآجائیگا
کہ برے حالات کی اصل وجہ ہمارے(عوام کے) گناہ ہیں جن میں ہم خود اپنی مرضی سے مبتلا ہیں، ان ہی گناہوں کی
بدولت بری حکومتیں ہم پر مسلط ہوئی ہیں۔ اگر حکومتیں اپنی ذمہ داریاں پوری نہ کریں تو بلا شبہ مجرم ہے لیکن یہ
قانون صرف حکومتوں پر ہی لاگو نہیں ہوتا بلکہ ہر انسان پر لاگو ہوتا ہے، اگر ہم (عوام) بھی اپنی ذمہ داریوں سے
روگردانی اختیار کرتےہیں تو ہم بھی مجرم ہیں اسلیئے ہم اپنے گناہوں اورجرائم کا ذمہ دارحکومت کو نہیں ٹہراسکتے،
اورجیسا کہ میں نےعرض کیا کہ جن بدترین اورشرم ناک گناہوں کوہم نےاپنے گھروں اورخاندانوں میں پھیلائے رکھا
ہے یہی وہ گناہ ہیں جنکی وجہ سے آج ہم سب پریشان ہیں اور ہمارے ان گناہوں پر کسی بھی حکومت نے ہمیں ذرہ
برابر بھی مجبور نہیں کیا ہے، تو پھرصرف بری حکومت کا ہی کیوں رونا؟ رونا تو ہمیں اس پر چاہئیے کہ آج بہت سے
بدترین قسم کے شرمناک گناہ ہمارے اکثر شریف کہلانے والے، اعلٰی تعلیم یافتہ اور سمجھدار سمجھے جانے والے
خاندانوں تک میں عام ہو چکے ہیں اور حد تو یہ ہے کہ ان گناہوں کو تو اب گناہ ہی نہیں سمجھا جاتا ہے۔ رونا تو اس
پر چاہئیے کہ عام طور سے آج ہمارے تعلیم یافتہ طبقہ کی سوچ اور روش بالکل وہی ہے جو غیر تعلیم تافتہ طبقہ کی
کہ اپنے کسی بھی گناہ کو تو چھوڑنا چاہتے نہیں ہیں بس حکومت اچھی ہو جائے۔
اگر ہم اینانداری سےغور کریں تو واضح نظر آئیگا کہ اب تک حکومتوں کےخلاف جتنے بھی آرٹیکلز لکھے گئے ہیں
ان سے پاکستانی قوم کو ذرابھی فائیدہ نہیں پہنچا ہے بلکہ اس سے پوری قوم کا شدید نقصان ہوا ہے جسکا ازالہ کرنا
اب بہت مشکل ہوچکا ہےجبکہ کسی بھی حکومت کی بداطواریوں میں کچھ بھی کمی نہیں آئی ہے اور وہ اپنی روش پر
ویسے ہی قائم ہیں اوربدستورقوم کولوٹ رہی ہیں۔ اگراسکے بجائےہم آپس میں اس بات پر تبادلہء خیال کریں کہ ہمارے
اندراورہمارے گھروں اورخاندانوں میں اور پھرہمارے معاشرے میں پھیلے شرم ناک گناہوں اور برائیوں کو کس طرح
ختم کیا جائے تو اس سے ہم یقیناً کسی نتیجہ پر پہنچ سکتے ہیں اورانشاء اللہ پھر ہم خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لینگے
کہ اللہ تعالٰی کس طرح ان ظالم حکمرانوں کو ذلیل کرکے نکال باہر کرتا ہے، لیکن اگرہم (عوام) شرم ناک گناہوں کو
چھوڑنے کیلیئے تیار نہیں ہیں تو پھر ہمیں اس ہی طرح ذلیل و خوار ہوکر ہی رہنا پڑیگا، ہماری (عوام کی) خوشحالی
اوربربادی، دونوں ہی ہمارے ہاتھوں میں ہیں فیصلہ ہمیں خود کرنا ہے۔
فرخ عابدی
farrukhabidi@yahoo.com