شادی کے اکیس برس کے بعد آخر میری بیوی کے دل میں نیکی لہرائی کچھ کہنے سے پہلے وہ جھجکی،شرمائی
اپنے دل کی وسعت پر تھوڑا اِترائی
پھر بولی
آج اس عورت کو تم ڈیٹ پہ لے جاؤ
جو تمہاری چاہت میں دیوانی ہے
جس کی بھیگی آنکھوں میں ویرانی ہے
مجھ کو تم سے پیار بہت ہے
تم سے دو لمحے کی دُوری،گو کارِ دشوار بہت ہے
پر میرا دل نرم بہت ہے
آنکھوں میں بھی شرم بہت ہے
اور اس بات کا علم ہے مجھ کو
وہ عورت بھی تم سے ملنے کی طالب ہے
چاہ تمہاری اس کے دل پر بھی غالب ہے
وہ تنہا ہے ،دوری کا دکھ سہتے سہتے اُوب چکی ہے
اکلاپے کے ساگر میں وہ چپکے چپکے ڈوب چکی ہے
میری بیوی نے جس عورت سے ملنے کی چھٹی دی تھی
میری ماں تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو پچھلے اُنیس برس سے بیوہ تھی تنہا رہتی تھی
اور میں اپنے بیوی بچوں ،کام اور دھندوں
کی ڈوری سے بندھا ہوا تھا
اس سے کم ہی مل پاتا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فون کیا جب میں نے اس کو
رات کے کھانے کی دعوت دی
وہ حیران سی ہو کر بولی
اللہ تم کو خیر سے رکھے،آج تمہاری طبیعت شائد ٹھیک نہیں ہے
میں شرمندہ ہو کر بولا
ماں میں بالکل ٹھیک ہوں فٹ ہوں
صرف تمہارے ساتھ کچھ اچھا وقت بِتانے کی خواہش ہے
گھومیں گے کھانا کھائیں گے اور بہت سی باتیں ہوں گی
پیاری ماں ہم دونوں ہوں گے بس ہم دونوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اک لمحہ سوچ کے بولی
ٹھیک ہے بیٹے ،شام کو میں تیار رہوں گی
کام سے فارغ ہو کر جب میں اپنی ماں کو لینے پہنچا
مجھ کو یوں محسوس ہوا میں نروس سا ہوں
ماں بھی بے حد خوش تھی لیکن نروس سی تھی
ہلکا نیلا سُند جوڑا میری ماں کے زیبِ تن تھا
بالوں میں بھی پھول سجے تھے
اس کے ملکوتی چہرے پر نرمی تھی اور شکر گذاری
کار کی سیٹ پہ بیٹھ گئی تو ہنس کربولی
میں نے اپنی سب سکھیوں کو میری اور تمہاری ڈیٹ کے بارے میں بتلایا ہے
وہ بے حد حیران ہوئیں اور ان پر کافی رعب پڑا تھا
وہ کل مجھ سے فون پہ اک اک لمحے کی تفصیل سنیں گی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریستوران میں جب ہم پہنچے
میری ماں میرے بازو کو یوں تھامے تھی
گویا وہ خاتونِ اول کے منصب پر فائز ہے
میں نے مینیو پڑھتے پڑھتے رک کر اس کی جانب دیکھا
وہ مجھ کو گہری نظروں سے دیکھ رہی تھی
میرے ہاتھ کو چُھو کر بولی
یاد ہے تم کو مینیو پڑھنا کام تھا میرا جب تم چھوٹے سے لڑکے تھے
میں بولا ہاں یاد ہے مجھ کو ،وہ دن کتنے اچھے تھے
کھانا کھاتے کافی پیتے ہم نے ڈھیروں باتیں کی تھیں
میرے بچپن اور جوانی کا ہر لمحہ یاد تھا اس کو
اس کی آنکھوں میں وہ منظر نقش تھے سارے
اس کے دل میں میری یاد کا بیتا موسم ٹھہر گیا تھا
جب ہم واپس لوٹ رہے تھے تب ماں بولی
میں تمہارے ساتھ دوبارہ کھانا کھانے جاؤں گی
لیکن اگلی بار یہ دعوت میری جانب سے ہو گی
میں نے ہنس کر حامی بھر لی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماں کو اس کے گھر پر چھوڑ کے رات گئے جب میں گھر پہنچا
میری بیوی ہنس کر بولی ''کیسی تھی یہ ڈیٹ تمہاری''؟
تب میں اگلی'' ڈیٹ ''پہ جانے کے بارے میں سوچ رہا تھا
جس کی حامی بھر آیا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مگربہانہ گھڑنے کی نوبت نہ آئی
میری ماں تو اکیس دن بھی بعد اس ڈیٹ کے جی نہ پائی
اک ہفتے کے بعد ہی یکدم وہ یہ دنیا چھوڑ گئی
ماں کے مر جانے کے بعد
ایک لفافہ ڈاک سے میرے نام آیا
اس میں کیا تھا؟
ایک رسید کی کاپی تھی اس ریستوران کی
میں نے اس شب اپنی ماں کے ساتھ جہاں کھانا کھایا تھا
اک پرچہ بھی ساتھ تھا اس کے
جس پر ماں کے ہاتھوں سے یہ نوٹ لکھا تھا
میرے بیٹے میں نے جس کھانے کی تم کو دعوت دی تھی
اس کے بل کی پے منٹ میں نے کل ایڈوانس میں کر دی ہے
میرا جی کچھ ٹھیک نہیں ہے،اور رسید کی کاپی تم کو بھیج رہی ہوں
ساتھ تمہارے اب میں شائد اور اک شام بِتا نہ پاؤں
ریستوران میں جا کر کھانا کھا نہ پاؤں
پھر بھی کوئی بات نہیں ہے
میں نے دو افراد کے کھانے کی ہی ان کو پے منٹ کی ہے
تم اپنی بیوی کے ہمراہ اسی جگہ پر کھانا کھانا، لطف اٹھانا
میری جانب سے یہ دعوت ایک محبت کا ٹوکن ہے
شائد تم یہ جان نہ پاؤ،جس شب ہم نے کھانا کھایا باتیں کی تھیں
میرے ویراں جیون میں وہ سُندرشب آباد بہت ہے
باقی جیون خوش رہنے کو ،اس اک شب کی یاد بہت ہے!!!
No comments:
Post a Comment
Note: Only a member of this blog may post a comment.