ایک نقاد فلاسفر کا گزر ایک گاؤں سے ھوا... کیا دیکھتا ھے کہ اُدھر ایک بیل کی آنکھوں پر پٹی بندھی ھوئی ھے، ایک گھنٹی اُسکی گردن سے لٹکی ھوئی ھے اور وہ کسی محور کے گرد گول گول گھوم رھا ھے...
پوچھنے پر پتہ چلا کہ یہ "کوھلو" ھے جس سے تیل نکالتے ھیں۔ اُس نے کہا، "وہ تو ٹھیک ھے لیکن تیل آپ خود کیوں نہیں نکالتے، بیچارے بیل کو کیوں تکلیف دے رھے ھو..؟
لوگوں نے کہا، "دراصل بیل ایک مضبوط اعصاب کا جانور ھے جو تھکتا نہیں ھے اس لیے اسے ایسے ہی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے..!"
پھر اُس فلاسفر نے پوچھا، "یہ بیل کی آنکھوں پر پٹی کیوں باندھی ھوئی ھے..؟"
تو لوگوں نے بتایا، "چونکہ ھم نے اِس کے آس پاس ھی چلنا پھرنا ھوتا ھے تو پٹی اس لیے باندھی ھے کہ یہ ھمارے سے ڈرے بغیر اپنا کام کرتا رھے..!"
وہ بولا ابھی ابھی تو آپ کہہ رھے تھے کہ، "یہ مضبوط اعصاب کا مالک ھے تو پھر وہ آپ سے کیسے ڈر سکتا ھے..؟
لوگوں نے کہا، "یہ ڈرنا ایسا نہیں ھے کہ وہ ھم سے ڈرتا ھے بلکہ اِس کے ڈر کی وجہ سے یہ زور لگا کر کوھلو کی لکڑی توڑ کر بھاگ بھی سکتا ہے..!!
پھر اُس نے پوچھا، "اچھا یہ اس کے گلے میں گھنٹی کیوں ھے..؟
تو اُسے بتایا گیا کہ، "چونکہ ھم لوگ اپنے کاموں میں مصروف ھوتے ھیں۔ گھنٹی چلتی کا مطلب ھے بیل چل رھا ھے اور جب گھنٹی رک جاتی ھے تو اس کا مطلب ھے بیل رک گیا ھے تو ہم پھر اِسے ایک ھلکی سی آواز دیتے ھیں تو یہ پھر سے چلنے لگتا ھے..!
وہ بولا، "بھئی..! اگر ایسا ہو کہ بیل کھڑے کھڑے گردن ہلاتا رہے، اور گھنٹی بجتی رہے تو آپکو تو یہی لگے گا کہ بیل چل رہا ہے، تو پھر گھنٹی کا کیا فائدہ..؟
وھاں پر موجود ایک بزرگ نے پوچھا، "بھئی تم ھو کون..؟
وہ بولا،"میں ایک فلاسفر ھوں..!
تبھی وہ بزرگ غصے سے بولے، "جاؤ بیٹا جاؤ! اپنا کام کرو، نہ تو ھم فلاسفر ھیں اور نہ ھمارا بیل اتنا سمجھ دار ہے کہ اتنی چھوٹی چھوٹی باتوں کو سوچنے بیٹھ جائیں.....
یہ تحریر لکھنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ وہ لوگ جنہیں بات بات پر تنقید کرنے کی عادت ہوتی ہے اور بجائے اِس کے کہ وہ کسی کی اچھی بات کی تعریف کریں اور اُس پر عمل کریں، اُن کا مقصد صرف کیڑے نکالنا ہی ہوتا ہے..!!