سے ترجمہ
افضل خان نے بڑی حقارت سے مجھے کہا " پشتون ہوکر تمہیں شرم تک نہیں آئی کہ بیٹی کو ٹورانٹو یونیورسٹی بھیج دیاــ "ـ ۔ میں نے اسے جواب دیا کہ اس میں شرم کی بات کہاں سے آ گئی ۔ میری بیٹی ہے اسے پڑھنے کیلئے داخل کروایا ہے ۔
اس نے کہا ''تم اسے پڑھناکہتے ہو جہاں تمام گوروں کے لڑکے پڑھتے ہیں اور گوروں کی بیٹیاں ! ان پر تو ویسے ہی خدا کی لعنت ہے ۔ شرم و حیا سے تو دور کا واسطہ نہیں ۔ بیٹی کی شادی کرکے دفع کرو ۔ جان چھڑاؤ اس سے ''
مجھے افضل خان کی گفتگو بہت بری لگی اور اسے کہا '' نہ میں نے تم سے پوچھا ہے ، نہ مشورہ لیا ہے اور نہ ہی مشورہ لینا چاہتا ہوں'' ۔
افضل خان مجھ سے چند سال پہلے کینیڈآ یا تھا ۔ اچھا پڑھا لکھا تھا پیشے کے لحاظ سے اکاؤنٹنٹ تھا ۔ معقول نوکری تھی کمائی بھی معقول تھی ۔ دو بچوں ، ایک بیٹا اور ایک بیٹی کا باپ تھا ۔ اس کی بیٹی میری چھوٹی بیٹی کی کلاس فیلو تھی ۔ اور کبھی کبھی میری بیٹی سے ملنے ہمارے گھر بھی آجاتی تھی اس کا نام شیرینئ تھا اور اپنے نام کی طرح خود بھی بہت سویٹ طبیعت کی مالک تھی ۔ ہمارے گھر کے سب ہی اس کی بہت عزت کرتے تھے ۔ اس کا بھائی اس سے بڑا تھا ۔ وہ بھی بہت ذہین لڑکا تھا ۔ اور پڑھائی میں بھی بہت تیز تھا ۔ امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی میں میڈیکل کے آخری سال میں تھا ۔ البتہ بہن کی طرح ملنسار نہ تھا ۔ہمارے گھر کبھی آیا نہیں لیکن ہم اتنا جانتے تھے کہ ماں باپ کی آنکھوں کا تارا تھا ۔ ایک ہی تو بیٹا تھا ۔ بیٹی بھی ایک ہی تھی مگر ان دونوں کے ساتھ سلوک میں بڑا فرق تھا ۔بیٹا بیٹا تھا اور ان کی نظر میں بیٹی کا وہ مقام نہیں تھا جو بیٹے کا تھا ۔شیرینئ نے کبھی اس بات کا ذکر ہم سے نہیں کیا ۔
پھر ایک دن اطلاع ملی کہ افضل خان گرمیوں کی چھٹیاں منانے بمع اہل و عیال پاکستان چلے گئے ۔ یہ خبر ہمارے لئے کوئی انوکھی نہیں تھی ۔ سب ہی لوگ سال دو سال بعدجاتے ہیں ۔ اس وقت شیرینئ نے نواں گریڈ مکمل کر لیا تھا اور چھٹیوں کے بعد دسویں گریڈ میں ہونا تھا ۔ ہمیں حیرت اس وقت ہوئی جب واپس آئے مگر شیرینئ ان کے ساتھ نہیں آئی ۔
میری چھوٹی بیٹی نے بتایا کہ باپ نے اس کی شادی اپنے ایک بھتیجے کے ساتھ کر دی ہے اسلئے اسے وہیں چھوڑ کر آگئے ہیں ۔ اور یہ بھی بتا یا کہ شیرینئ اس شادی سے خوش نہیں ۔ کیونکہ اول تو یہ شادی اس کی مرضی کے خلاف ہوئی ہے اور لڑکا اس سے عمر میں بہت بڑا ہے اور بالکل ان پڑھ ہے ۔ کنیڈین قانون کے مطابق زبردستی اس کی شادی نہیں ہو سکتی اور پھر وہ یہاں کے حساب سے کمسن بھی تھی ۔ اور کمسن کی شادی زبردستی کردینا جرم ہے ۔
پاکستان سے واپسی کے دو ماہ بعد ہی افضل خان بمع فیملی امریکہ چلا گیا ۔ کوالیفائیئد شخص تھا آسانی سے امریکہ کی امیگریشن مل گئی ۔ ٹورانٹو میں مکان بیچ دیا ۔ میں نے اسے مشورہ دیا کہ مکان نہ بیچو اگر واپس آنا ہوا تو رہائش کا مسئلہ نہیں ہوگا تو کہنے لگا بیٹے کے اخراجات اب بڑھ گئے ہیں اور واپس کینیڈا آنے کا کوئی ارادہ نھیں ۔ امریکہ میں باپ بیٹا ایک ساتھ رہینگے ۔ اس کے جانے کے بعد ہمارا رابطہ بھی ختم ہو گیا
میری بیٹی اور شیرینئ نے ابطہ قائم رکھا ۔ کبھی کبھار بیٹی بتاتی کہ شیرینئ بہت مشکل میں ہے ۔ شوہر کی مار پیٹ تو روز کا معمول ہے ۔ پھر ایک دن بتایا کہ شوہر نے اس کا بازو توڑ دیا ہے ۔ پھر بتایا کہ سر پر بہت چوٹیں آئی ہیں ۔ مجھے اس کے حال پر بہت ترس آتا اور ہمدردی تھی مگر ہزاروں میل دور رہ کر میں اس کی کیا مدد کر سکتا تھا ۔
اور یوں دو سال گزر گئے ۔ ایک دن ایک سوشل پارٹی میں ایک دوست سے ملاقات ہوئی جو پارلیمنٹ کا ممبر تھا باتوں باتوں میں ، میں نے شیرینئ کا ذکر چھیڑ دیا تو اس نے شیرینئ کا نام او مقام نوٹ کرلیا ۔میں نے سوچا سیاستدان ہے گھر پہنچتے پہنچتے سب کچھ بھول جائیگا ۔
ہفتہ گزرا ہوگا ایک شام میں ٹی وی پر خبریں دیکھ رہا تھا کہ ایک خبر نے مجھے چونکا دیا ۔ خبر تھی کہ پاکستان میں کنیڈین ہائی کمیشن نے ایک کنیڈین کم سن لڑکی کو جس کا نام شیرینئ ہے پختون خوا کے ایک گاؤں سے زخمی حالت میں برامد کرکے اپنے تحویل میں لے لیا ہے ۔ ابھی اس کا علاج جاری ہے ۔ سفر کے قابل ہو جائے تو ہائی کمیشن اسے سرکاری خرچ پر کنیڈا واپس بھیج دیگا ۔
دوسرے دن صبح ہوتے ہی میں نے فارن آفس سے فون پر رابطہ کیا
انہوں نے مجھ سے پوچھا" کیا تم اس لڑکی کو جانتے ہو؟ـ ـ
میں جواب دیا ، ہاں جانتا ہو ں میری بیٹی کے ساتھ پڑھتی تھی
دوسرا سوال پوچھا اس کے ماں باپ یا کوئی اور رشتہ دار ؟
میں نے بتایا کہ ماں باپ کو جانتا ہوں مگر وہ امریکہ چلے گئے ہیں اور میرا ان سے کوئی رابطہ نہیں
انہوں نے میرا فون نمبر اور گھر کا پتہ نوٹ کر لیا اور کہا کہ جلد ہی مجھ سے رابطہ کرینگے
چند دن بعد، بچوں کی حفاظت کے محکمے سے دو خواتین میرے گھر آئیں اور علیحدہ علیحدہ مجھ سے، میری بیوی اور بچوں سے پوچھ گچھ کے بعد کہا کہ کیاآپ ایک سال کیلئے شیرینئ کو اپنے گھر رکھنے کی ذمہ داری قبول کر لینگے ؟ اس کا تمام خرچہ حکومت ادا کریگی ۔
میں نےحامی بھرتے ہوے کہا ، اللہ اس نیک کام کی ہمت اور توفیق دے ۔
وہ یہ کہہ کر چلی گئیں کہ وہ میرے متعلق کچھ مزید تحقیقات کرنے کے بعد مجھے اطلاع دینگے ۔
پندرہ دن بعد عدالت میں پیشی کا سمن ملا۔پیشی پر جج نے شیرینئ کو رکھنے کی ذمہ داری مجھے سونپ دی ۔ دوسرے دن وہی دو کارکن خواتین ایک خاتون پولیس افسر کی معیت میں شیرینئ کو میرے گھر لے آئے ۔اس کی صحت کا جو حال تھا تو اسے دیکھ کر پہلے تو ہم اسے پہچان نہ سکے ۔پھر میری بیوی اور بیٹیاں اس سے لپٹ کر دھاڑیں مار کر رونے لگیں ۔ میں بھی اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا ۔خاتون پولیس افسر کی طرف دیکھا تو وہ بھی آنسو پونچھ رہی تھی ۔
بچوں کے حفاظت کے محکمے نےلیگل ایڈ کے وکیلوں کے ذریعے اور مسلمان علما کے مشورے سے ، عدالت میں خلع کا دعوا دائر کر دیا ۔ اور چھ ماہ کے اندر اندر عدالت نے اسے آزادی کا فیصلہ جاری کردیا۔ تین سال تک شیرینئ ہمارے ساتھ میری بیٹیوں کی طرح رہی ۔اور با قاعدگی کے ساتھ سکول جاتی رہی ۔بارہ گریڈ مکمل کر لئے تو اس نے ارادہ ظاہر کیا کہ وہ اب ملازمت کریگی اور اپنی ایک دو سہیلیوں کے ساتھ مل کر رہائش رکھنا چاہتی ہے۔
حکومت جو رقم اس کے خرچ کا دیتی رہی، میری بیوی نے یہ رقم اس کے لئے جمع کر رکھی تھی بنک سےنکال کر اس کے حوالے کی کہ یہ تمہاری امانت ہے۔
پھر ایک دن ہمارے گھرآئی اور شادی کا ارادہ ظاہر کیا اور کہا کہ آپ ہی میرے ماں باپ ہیں۔ آپ کی اجازت اور دعائیں چاہیے۔ لڑکا میرے بڑے داماد کا دوست تھا ۔ جانا پہچانا تھا نہایت شریف اور نیک خو لڑکا تھا اور برسرروزگار تھا ۔ پشتون نہیں تھا تو کیا ہوا ۔ ایک اچھا مسلمان تھا ۔ ہم نے اپنی ہی بیٹی کی طرح اس کی شادی کا انتظام کیا اور نہایت عزت کے ساتھ اس کی رخصتی کردی ۔
شیرینئ اور امجد کی شادی کو تین سال گزرے ہونگے کہ ایک دن اچانک اس کے باپ کا فون آیا۔ اور جو گالی گلوچ اس کے منہ سے نکل سکی مجھے اس سے نوازا۔ مجھےکچھ کہنے کاموقعہ ہی نہیں دیا اور فون بند کردیا ۔میں حیران اس بات پر ہوا کہ یہ تو امریکہ چلا گیا تھا مگر یہ فون نمبر تو ٹورانٹو کا تھا ۔ پھر سوچا شائد سیر تفریح کیلئے ٹورانٹو آیا ہو ۔ بیٹی کی شادی کی اطلاع مل گئی ہو۔ ظاہر ہے سارا عتاب مجھ پر ہی گرنا تھا۔
اس کا ایک رشتہ دار امیر خان، ٹورانٹو میں رہتا تھا اس کا فون نمبر تلاش کرکے اسے فون کیا بہت حیران ہوا ۔ کہنے لگا سالوں بعد میری یاد کیسے آگئی ؟ میں نے اسے بتایا کہ آج افضل خان کا فون آیا تھا۔ وہ ٹورانٹو کب آیا ہے ؟
تو اس نے بتایا کہ وہ تو دو سال سے یہاں ہے ۔بیمار ہے ۔ کینسر کے مرض میں غریب مبتلا ہے ۔ ویلفیر پر زندگی گزار رہا ہے ۔غریب علاقے میں ایک سستے کمرے میں کرائے پر رہتا ہے ۔
میں نے پوچھا یہ کیسے ہوا ۔ اور اس کا بیٹا ؟
اس نے بتایا کہ بیٹا تو ٹیکساس میں بہت بڑا ڈاکٹر ہے ۔ کمائی کا کوئی حساب نہیں ۔ باپ نے اس کی شادی پختون خوا کےایک اونچے اور معزز گھرانے میں کی ہے ۔ ٹیکساس کے مشہور پوش علاقے میں بہت بڑا گھر ہے ۔ گھر کیا محل ہے ۔مگر باپ کیلئے اس گھر میں جگہ نہیں۔بیوی کو اسی دکھ نے زندگی سے محروم کردیا۔بہو اسےکہتی تھی تم دن رات کھانستے رہتے ہو ۔ ہمارے ہاں بڑے بڑے معزز مہمان آتے ہیں وہ کیا سوچتے ہونگے ۔
میں نے اسے کہا، کل جمعہ ہے نماز کے بعد تمہاری طرف آؤنگا۔ بیوی کوسارا ماجرا سنایا اور آپس میں مشورہ کیا کہ کیا کرنا چاہئے ۔ دوسرے دن امیر خان کے گھر گیا اور اسے شیرینئ کے متعلق حالات سے آگاہ کیا ۔اور اسے بتایا کہ شیرینئ اسی شہر میں ہے ۔تو امیر خان نے کہا کہ اس نے بیٹی کے ساتھ جو سلوک کیا ہےتو وہ اس کو کیوں پوچھے گی ۔میں نے اسے کہا یہ فیصلہ شیرینئ پر چھوڑ دو۔ پہلے ہم دونوں اس سے ملتے ہیں پھر شیرینئ کو ملانے لے جائنگے۔
دوسرے دن میں اور امیر خان اس سے ملنےاس کے کمرے میں گئے ۔ اس کاحال جو دیکھا اللہ معاف کرے ۔ کسی دشمن کو بھی یہ دن نہ دکھائے۔اس نے امیر خان کو تو پہچان لیا ۔ اس سے پوچھا یہ تمہارے ساتھ دوسرا آدمی کون ہے ؟
امیر خان نے کہا ۔ پہچانا نہیں ۔ تمہارا دوست سلیم جان ہے نا ۔
میرا نام سنتے ہی جیسے اسے آگ لگ گئی ۔ تڑپ کر کہا ، میرے دشمن کو یہاں کیوں لائے ہو فوراـَ نکالو اسے میرے کمرے سے۔
امیر خان نے اسے ذرا ٹھنڈا کیا اور بتایا کہ تمہاری بیٹی شیرینئ اسی شہر میں ہے تو ایک بار پھر بھڑک اٹھا ۔ میری کوئی بیٹی نہیں ۔ تھی اب مر چکی ہے ۔ اس نے پہلے ہی میری عزت خاک میں ملا دی ہے ۔ اس کیلئے باقی کیا بچا ہے ۔ میرے سامنے اس کا نام مت لو۔
اب امیر خان اس کے ساتھ کچھ سختی سےبولا۔ دیکھو افضل خان تمہاری ٹانگیں قبر میں لٹک رہی ہیں ۔ موت تمہارے سر پرمنڈلا رہی ہے ۔آج نہیں تو کل تم مٹی کے نیچے ہمیشہ کیلئے دب جاؤگے ۔تم بیٹی کو دیکھنا نہیں چاہتے تو مت دیکھو مگر اسے تو اپنے باپ کو مرنے سے پہلے دیکھ لینے دو۔ابھی ہم چلتے ہیں ایک دو روز بعد پھر آئینگے۔
افضل خان نے کوئی جواب نہ دیا اور ہم واپس لوٹ آئے۔
میں بڑی مشکل میں پھنس گیا کہ شیرینئ کو اس کی ماں کی موت کی خبر، باپ کی اس شہر میں موجودگی اور بیماری کا حال کیسے بتایا جائے ۔میں نے دونوں بیٹیوں کو بلا کر مدد کیلئے کہا ۔ دونوں نے ذمہ لیا کہ میں بے فکر ہو جاؤں۔اور اسی وقت شیرینئ کو فون کیا کہ شام کا کھانا بابا کے گھر ہے ۔ دونوں میاں بیوی فوراَِ پہنچوَ۔ کباب بن رہے ہیں ٹھنڈے ہو جائنگے۔
آدھا گھنٹہ نہیں گزرا تھا کہ ڈرائیوے میں ان کی کار رکنے کی آواز آئی ۔ سب نے مل کر ہنسی خوشی کھانا کھایا ۔پھر میری بیٹی نے شیرینئ سے کہا تمہارے لئے ایک خبر ہے ۔ تمہارا باپ آج کل ٹورانٹو میں ہے ۔ ملنے کو دل چاہتا ہے۔
شیرینئ تڑپ کر بولی ۔ کہاں ہے ؟ تم لوگوں نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا ۔کب آیا ہے ۔ میرا تو نہیں پوچھا ہوگا۔ نہ بھی پوچھا ہو تو کوئی بات نہیں ۔مجھے ابھی ان کے پاس لے چلو۔
میری بیٹی نے کہا ۔ ابھی تو نہیں لے جاسکتے ۔ ان کی طبیعت ذرا ٹھیک نہیں ۔
کیوں ہسپتال میں ہے ؟ بڑی پریشانی سے پوچھا
نہیں ہسپتال میں نہیں ۔ ایک دوست کے گھر ہے۔ بیٹی نے بتایا۔
کیا ہوا ہے ان کو ۔ مجھے بتاتے کیوں نہیں ہو۔
بیٹی نے جواب دیا ۔ ہمیں اس سے زیادہ خود پتہ نہیں ۔ ان کے دوست کا فون آیا تھا ۔ کہ کل آجانا ۔
پھر چھوٹی بیٹی بولی ۔ ایک اور خبر بھی ہے ۔کوئی اتنی خوشگوار خبر نہیں اگر سہنے کی ہمت ہے تو !
تو شیرینئ نے ایک دم سے پوچھا ۔میری ماں تو ٹھیک ہے نا ؟
اور میری بیٹی کا دل بھر آیا ۔ منہ دوسری طرف پھیر کر رونی آواز میں کہا ۔تمہاری ماں اس دنیا کو چھوڑ گئی ہیں۔
شیرینئ چیخ پڑی ۔ نہیں یہ نہیں ہو سکتا ۔ تم سب جھوٹ بول رہے ہو ۔اور بیہوش ہو کر صوفے پر ڈھیر ہو گئی۔
اسی شام امیر خان کو فون کیا کہ جاکر افضل خان کو کسی طرح اپنے گھر لے آؤ۔ اور شیرینئ کا سارا حال بھی بتا دیا ۔دوسرے روز شیرینئ، اس کا شوہر امجد اور میں دوپہر تک امیر خان کے گھر پہنچ گئے ۔باپ کو دیکھتے ہی شیرینئ کی چیخ نکل گئی اور روتے ہوے باپ سے چمٹ گئی ۔ کچھ دیر تک افضل خان کو کچھ سمجھ نہیں آئی کہ یہ کیا ہو رہا ہے ۔حیران آنکھوں سے کبھی ایک کو کبھی دوسرے کو دیکھتا رہا ۔
امیر خان نے اسے کہا ۔جاگ جاؤ افضل خان۔ آنکھیں کھول کر دیکھو تمہاری بیٹی آئی ہے۔
میرا بیٹا کہاں ہے وہ نہیں آیا ؟ افضل خان نے کھوئی کھوئی نظروں سے سب کو دیکھتے ہوے کہا
امیر خان نے اسے جواب دیا ۔ تمہارا بیٹا نہیں آئیگا ۔ بیٹی تمہیں اپنے گھر لے جانے کیلئے آئی ہے
افضل خان جیسے مدہوشی کی حالت میں کہہ رہا ہو۔ میں بیٹے کے گھر جاؤنگا۔
امیر خان نے غصے سے کہا ۔ بیٹا، بیٹا، بیٹا ۔۔۔۔۔۔۔ بیٹے نے گھر سے نکال دیا ہے اور بیٹی گھر لے جانے آئی ہے۔ آنکھیں کھول کر دیکھو ۔
نہیں میرا بیٹا برا نہیں ۔ ذرا عورتوں کے بہکانے میں آگیا ہے۔
امجد نے کہا۔ بابا میں بھی آپ کا بیٹا ہوں ۔ میں کسی کے بہکاوے مین نہیں آؤنگا۔
شیرینئ نے کہا ۔ بابا چھوڑو باتیں ۔ اٹھو گھر چلیں۔
افضل خان ایک بار پھر شیرینئ کو یوں دیکھنے لگا جیسے اسے پہچاننے کی کوشش کر رہا ہو۔
امیر خان نے اسے کہا۔ ٹھیک ہے اگر تم بیٹی کے ساتھ نہیں جاؤگے تو میں تمھیں اس غلیظ کمرے میں پھر سے پھینک آؤنگا ۔ وہاں اکیلے پڑے سڑتے رہنا ۔ تمہیں وہاں پوچھنے کوئی نہیں آئیگا۔افضل خان کچھ دیر خاموش بیٹھا رہا ۔پھر جیسے سیلاب کے آگے باندھے تمام بند ٹوٹ پڑے اور وہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔ شیرینئ اس کی طرف لپکی مگر میں نے اشارے سے اسے روک دیا ۔کہ صبر کرو۔ وہ کچھ دیر تک خوب رویا ۔ جب دل ہلکا ہوا اورخاموش ہوگیا ۔ تو شیرینئ اس کے پاس بیٹھ گئی ۔ خود روتی رہی اور باپ کے آنسو پونچھتی رہی ۔ جب طوفان گزر گیا اور سکون ہو گیا تو ہاتھ اٹھا کر بیٹی کے آنسو پونچھنے لگا۔ اور اسے سینے سے لگایا۔ پھر شیرینئ کا ہاتھ پکڑ کر کہنے لگا ۔مجھے اٹھاؤ گھر چلیں۔ دوسرا ہاتھ امجد نے پکڑ کر اٹھایا اور تینوں کار کی طرف چل پڑے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment
Note: Only a member of this blog may post a comment.