معروف و معتبر برطانوی جریدے "دی اکانومسٹ" کے توانائی ایڈیٹر ایڈورڈلوکس کہتے ہیں کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں غیر معمولی کمی سے ایران اور روس کی حکومتیں گرانے کا کام لیا جارہا ہے۔ تیل پیدا کرنے والے ممالک میں سعودی عرب سر فہرست ہے اور ایران اس کے سب سے بڑے مخالفین میں سر فہرست ہے۔ ایران کی شامی صدر بشارالاسد کی حمایت بھی سعودی عرب کیلئے بہت بڑا مسئلہ ہے۔ دوسری جانب روس بھی شامی صدر کو مدد فراہم کررہا ہے۔ اس صورتحال میں ایران اور روس ایک طرف جبکہ سعودی عرب اور امریکا دوسری طرف کھڑے ہیں۔ امریکا بھی ایرانی اور روسی حکومت کو گرانا چاہتا ہے اور ان کی معیشت تباہ کرنا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب کی رہنمائی میں عالمی منڈی میں تیل کی قیمت انتہائی کم کردی گئی ہے تاکہ روسی اور ایرانی معیشت تباہ ہوجائے اور ان کی موجودہ حکومتوں کا خاتمہ ہوجائے۔ ایران اور روس پر مغربی ممالک کی طرف سے اقتصادی پابندیاں عائد ہیں اور انہیں اپنی معیشت چلانے کیلئے تیل کی پیداوار پر بھاری انحصار کرنا پڑتا ہے۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمت پچھلے پانچ ماہ کے دوران تقریباً آدھی رہ گئی ہے جس کی وجہ سے روس اور ایران کیلئے تیل بیچ کر زر مبادلہ کمانا بہت مشکل ہوچکا ہے اور ان کی معیشت شدید مسائل کا شکار ہورہی ہے۔ دوسری جانب سعودی عرب میں تیل کی پیداوار نسبتاً سستی ہے اور اس کے پاس وسیع ذخائر ہیں یعنی اسے تیل کی کم قیمت سے کم از کم کچھ سالوں تک کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
اگرچہ تیل کی قیمتوں میں کمی کا اثر امریکا کی شیل گیس انڈسٹری پر بھی پڑ رہا ہے اور اس کی دریافت اور فروخت متاثر ہورہی ہے لیکن ا مریکا پر امید ہے کہ روسی اور ایرانی معیشت کی تباہی کے بعد اس کیلئے حالات بہتر ہوجائیں گے۔ اگرچہ بظاہر یہ حکمت عملی کامیاب نظر آرہی ہے لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایران اور روس پر دباﺅ انہیں انتہائی اقدامات پر مجبور کرسکتا ہے اور دنیا ایک نئی جنگ کے شعلوں میں گھر سکتی ہے۔
No comments:
Post a Comment
Note: Only a member of this blog may post a comment.