Bismillah
Ayyat
Pakistani Human Resource available
This is to clarify to our all visitor and members that, we obey all Pakistani Rules and Regulations which is implemented in
We can provide you all type of Pakistani best Human Resource Skilled and Unskilled for all over the world and specially for Arab countries. If you required any type of Human Resource you can send us email at : joinpakistan@gmail.com We will do our best to satisfy your needs according to your requirement.
If you required a job or if you are searching for a good employee please contact us at : joinpakistan@gmail.com
Charagh
Friday, December 26, 2014
Mosque burnt down in Sweden (26Dec,2014) کرسمس پر ایک مغربی ملک سویڈن میں مسجد کو آگ لگا کر شہید کر دیا
Tuesday, December 23, 2014
سعودی عرب اور امریکہ تیل کی قیمتیں کیوں گرا رہے ہیں ؟سنسنی خیزانکشاف
معروف و معتبر برطانوی جریدے "دی اکانومسٹ" کے توانائی ایڈیٹر ایڈورڈلوکس کہتے ہیں کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں غیر معمولی کمی سے ایران اور روس کی حکومتیں گرانے کا کام لیا جارہا ہے۔ تیل پیدا کرنے والے ممالک میں سعودی عرب سر فہرست ہے اور ایران اس کے سب سے بڑے مخالفین میں سر فہرست ہے۔ ایران کی شامی صدر بشارالاسد کی حمایت بھی سعودی عرب کیلئے بہت بڑا مسئلہ ہے۔ دوسری جانب روس بھی شامی صدر کو مدد فراہم کررہا ہے۔ اس صورتحال میں ایران اور روس ایک طرف جبکہ سعودی عرب اور امریکا دوسری طرف کھڑے ہیں۔ امریکا بھی ایرانی اور روسی حکومت کو گرانا چاہتا ہے اور ان کی معیشت تباہ کرنا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب کی رہنمائی میں عالمی منڈی میں تیل کی قیمت انتہائی کم کردی گئی ہے تاکہ روسی اور ایرانی معیشت تباہ ہوجائے اور ان کی موجودہ حکومتوں کا خاتمہ ہوجائے۔ ایران اور روس پر مغربی ممالک کی طرف سے اقتصادی پابندیاں عائد ہیں اور انہیں اپنی معیشت چلانے کیلئے تیل کی پیداوار پر بھاری انحصار کرنا پڑتا ہے۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمت پچھلے پانچ ماہ کے دوران تقریباً آدھی رہ گئی ہے جس کی وجہ سے روس اور ایران کیلئے تیل بیچ کر زر مبادلہ کمانا بہت مشکل ہوچکا ہے اور ان کی معیشت شدید مسائل کا شکار ہورہی ہے۔ دوسری جانب سعودی عرب میں تیل کی پیداوار نسبتاً سستی ہے اور اس کے پاس وسیع ذخائر ہیں یعنی اسے تیل کی کم قیمت سے کم از کم کچھ سالوں تک کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
اگرچہ تیل کی قیمتوں میں کمی کا اثر امریکا کی شیل گیس انڈسٹری پر بھی پڑ رہا ہے اور اس کی دریافت اور فروخت متاثر ہورہی ہے لیکن ا مریکا پر امید ہے کہ روسی اور ایرانی معیشت کی تباہی کے بعد اس کیلئے حالات بہتر ہوجائیں گے۔ اگرچہ بظاہر یہ حکمت عملی کامیاب نظر آرہی ہے لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایران اور روس پر دباﺅ انہیں انتہائی اقدامات پر مجبور کرسکتا ہے اور دنیا ایک نئی جنگ کے شعلوں میں گھر سکتی ہے۔
Friday, December 19, 2014
Pak Army Hotline Emergency Number 1135
Wednesday, December 10, 2014
Tuesday, December 9, 2014
Saturday, December 6, 2014
میرا گناہ کیا ہے ایک بیٹی کا سوال؟
میرا گناہ کیا ہے ایک بیٹی کا سوال؟
ایک پختون بیٹی(تاج رحیم)
پشتو
سے ترجمہافضل خان نے بڑی حقارت سے مجھے کہا " پشتون ہوکر تمہیں شرم تک نہیں آئی کہ بیٹی کو ٹورانٹو یونیورسٹی بھیج دیاــ "ـ ۔ میں نے اسے جواب دیا کہ اس میں شرم کی بات کہاں سے آ گئی ۔ میری بیٹی ہے اسے پڑھنے کیلئے داخل کروایا ہے ۔اس نے کہا ''تم اسے پڑھناکہتے ہو جہاں تمام گوروں کے لڑکے پڑھتے ہیں اور گوروں کی بیٹیاں ! ان پر تو ویسے ہی خدا کی لعنت ہے ۔ شرم و حیا سے تو دور کا واسطہ نہیں ۔ بیٹی کی شادی کرکے دفع کرو ۔ جان چھڑاؤ اس سے ''مجھے افضل خان کی گفتگو بہت بری لگی اور اسے کہا '' نہ میں نے تم سے پوچھا ہے ، نہ مشورہ لیا ہے اور نہ ہی مشورہ لینا چاہتا ہوں'' ۔افضل خان مجھ سے چند سال پہلے کینیڈآ یا تھا ۔ اچھا پڑھا لکھا تھا پیشے کے لحاظ سے اکاؤنٹنٹ تھا ۔ معقول نوکری تھی کمائی بھی معقول تھی ۔ دو بچوں ، ایک بیٹا اور ایک بیٹی کا باپ تھا ۔ اس کی بیٹی میری چھوٹی بیٹی کی کلاس فیلو تھی ۔ اور کبھی کبھی میری بیٹی سے ملنے ہمارے گھر بھی آجاتی تھی اس کا نام شیرینئ تھا اور اپنے نام کی طرح خود بھی بہت سویٹ طبیعت کی مالک تھی ۔ ہمارے گھر کے سب ہی اس کی بہت عزت کرتے تھے ۔ اس کا بھائی اس سے بڑا تھا ۔ وہ بھی بہت ذہین لڑکا تھا ۔ اور پڑھائی میں بھی بہت تیز تھا ۔ امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی میں میڈیکل کے آخری سال میں تھا ۔ البتہ بہن کی طرح ملنسار نہ تھا ۔ہمارے گھر کبھی آیا نہیں لیکن ہم اتنا جانتے تھے کہ ماں باپ کی آنکھوں کا تارا تھا ۔ ایک ہی تو بیٹا تھا ۔ بیٹی بھی ایک ہی تھی مگر ان دونوں کے ساتھ سلوک میں بڑا فرق تھا ۔بیٹا بیٹا تھا اور ان کی نظر میں بیٹی کا وہ مقام نہیں تھا جو بیٹے کا تھا ۔شیرینئ نے کبھی اس بات کا ذکر ہم سے نہیں کیا ۔پھر ایک دن اطلاع ملی کہ افضل خان گرمیوں کی چھٹیاں منانے بمع اہل و عیال پاکستان چلے گئے ۔ یہ خبر ہمارے لئے کوئی انوکھی نہیں تھی ۔ سب ہی لوگ سال دو سال بعدجاتے ہیں ۔ اس وقت شیرینئ نے نواں گریڈ مکمل کر لیا تھا اور چھٹیوں کے بعد دسویں گریڈ میں ہونا تھا ۔ ہمیں حیرت اس وقت ہوئی جب واپس آئے مگر شیرینئ ان کے ساتھ نہیں آئی ۔میری چھوٹی بیٹی نے بتایا کہ باپ نے اس کی شادی اپنے ایک بھتیجے کے ساتھ کر دی ہے اسلئے اسے وہیں چھوڑ کر آگئے ہیں ۔ اور یہ بھی بتا یا کہ شیرینئ اس شادی سے خوش نہیں ۔ کیونکہ اول تو یہ شادی اس کی مرضی کے خلاف ہوئی ہے اور لڑکا اس سے عمر میں بہت بڑا ہے اور بالکل ان پڑھ ہے ۔ کنیڈین قانون کے مطابق زبردستی اس کی شادی نہیں ہو سکتی اور پھر وہ یہاں کے حساب سے کمسن بھی تھی ۔ اور کمسن کی شادی زبردستی کردینا جرم ہے ۔پاکستان سے واپسی کے دو ماہ بعد ہی افضل خان بمع فیملی امریکہ چلا گیا ۔ کوالیفائیئد شخص تھا آسانی سے امریکہ کی امیگریشن مل گئی ۔ ٹورانٹو میں مکان بیچ دیا ۔ میں نے اسے مشورہ دیا کہ مکان نہ بیچو اگر واپس آنا ہوا تو رہائش کا مسئلہ نہیں ہوگا تو کہنے لگا بیٹے کے اخراجات اب بڑھ گئے ہیں اور واپس کینیڈا آنے کا کوئی ارادہ نھیں ۔ امریکہ میں باپ بیٹا ایک ساتھ رہینگے ۔ اس کے جانے کے بعد ہمارا رابطہ بھی ختم ہو گیامیری بیٹی اور شیرینئ نے ابطہ قائم رکھا ۔ کبھی کبھار بیٹی بتاتی کہ شیرینئ بہت مشکل میں ہے ۔ شوہر کی مار پیٹ تو روز کا معمول ہے ۔ پھر ایک دن بتایا کہ شوہر نے اس کا بازو توڑ دیا ہے ۔ پھر بتایا کہ سر پر بہت چوٹیں آئی ہیں ۔ مجھے اس کے حال پر بہت ترس آتا اور ہمدردی تھی مگر ہزاروں میل دور رہ کر میں اس کی کیا مدد کر سکتا تھا ۔اور یوں دو سال گزر گئے ۔ ایک دن ایک سوشل پارٹی میں ایک دوست سے ملاقات ہوئی جو پارلیمنٹ کا ممبر تھا باتوں باتوں میں ، میں نے شیرینئ کا ذکر چھیڑ دیا تو اس نے شیرینئ کا نام او مقام نوٹ کرلیا ۔میں نے سوچا سیاستدان ہے گھر پہنچتے پہنچتے سب کچھ بھول جائیگا ۔ہفتہ گزرا ہوگا ایک شام میں ٹی وی پر خبریں دیکھ رہا تھا کہ ایک خبر نے مجھے چونکا دیا ۔ خبر تھی کہ پاکستان میں کنیڈین ہائی کمیشن نے ایک کنیڈین کم سن لڑکی کو جس کا نام شیرینئ ہے پختون خوا کے ایک گاؤں سے زخمی حالت میں برامد کرکے اپنے تحویل میں لے لیا ہے ۔ ابھی اس کا علاج جاری ہے ۔ سفر کے قابل ہو جائے تو ہائی کمیشن اسے سرکاری خرچ پر کنیڈا واپس بھیج دیگا ۔دوسرے دن صبح ہوتے ہی میں نے فارن آفس سے فون پر رابطہ کیاانہوں نے مجھ سے پوچھا" کیا تم اس لڑکی کو جانتے ہو؟ـ ـمیں جواب دیا ، ہاں جانتا ہو ں میری بیٹی کے ساتھ پڑھتی تھیدوسرا سوال پوچھا اس کے ماں باپ یا کوئی اور رشتہ دار ؟میں نے بتایا کہ ماں باپ کو جانتا ہوں مگر وہ امریکہ چلے گئے ہیں اور میرا ان سے کوئی رابطہ نہیںانہوں نے میرا فون نمبر اور گھر کا پتہ نوٹ کر لیا اور کہا کہ جلد ہی مجھ سے رابطہ کرینگےچند دن بعد، بچوں کی حفاظت کے محکمے سے دو خواتین میرے گھر آئیں اور علیحدہ علیحدہ مجھ سے، میری بیوی اور بچوں سے پوچھ گچھ کے بعد کہا کہ کیاآپ ایک سال کیلئے شیرینئ کو اپنے گھر رکھنے کی ذمہ داری قبول کر لینگے ؟ اس کا تمام خرچہ حکومت ادا کریگی ۔میں نےحامی بھرتے ہوے کہا ، اللہ اس نیک کام کی ہمت اور توفیق دے ۔وہ یہ کہہ کر چلی گئیں کہ وہ میرے متعلق کچھ مزید تحقیقات کرنے کے بعد مجھے اطلاع دینگے ۔پندرہ دن بعد عدالت میں پیشی کا سمن ملا۔پیشی پر جج نے شیرینئ کو رکھنے کی ذمہ داری مجھے سونپ دی ۔ دوسرے دن وہی دو کارکن خواتین ایک خاتون پولیس افسر کی معیت میں شیرینئ کو میرے گھر لے آئے ۔اس کی صحت کا جو حال تھا تو اسے دیکھ کر پہلے تو ہم اسے پہچان نہ سکے ۔پھر میری بیوی اور بیٹیاں اس سے لپٹ کر دھاڑیں مار کر رونے لگیں ۔ میں بھی اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا ۔خاتون پولیس افسر کی طرف دیکھا تو وہ بھی آنسو پونچھ رہی تھی ۔بچوں کے حفاظت کے محکمے نےلیگل ایڈ کے وکیلوں کے ذریعے اور مسلمان علما کے مشورے سے ، عدالت میں خلع کا دعوا دائر کر دیا ۔ اور چھ ماہ کے اندر اندر عدالت نے اسے آزادی کا فیصلہ جاری کردیا۔ تین سال تک شیرینئ ہمارے ساتھ میری بیٹیوں کی طرح رہی ۔اور با قاعدگی کے ساتھ سکول جاتی رہی ۔بارہ گریڈ مکمل کر لئے تو اس نے ارادہ ظاہر کیا کہ وہ اب ملازمت کریگی اور اپنی ایک دو سہیلیوں کے ساتھ مل کر رہائش رکھنا چاہتی ہے۔حکومت جو رقم اس کے خرچ کا دیتی رہی، میری بیوی نے یہ رقم اس کے لئے جمع کر رکھی تھی بنک سےنکال کر اس کے حوالے کی کہ یہ تمہاری امانت ہے۔پھر ایک دن ہمارے گھرآئی اور شادی کا ارادہ ظاہر کیا اور کہا کہ آپ ہی میرے ماں باپ ہیں۔ آپ کی اجازت اور دعائیں چاہیے۔ لڑکا میرے بڑے داماد کا دوست تھا ۔ جانا پہچانا تھا نہایت شریف اور نیک خو لڑکا تھا اور برسرروزگار تھا ۔ پشتون نہیں تھا تو کیا ہوا ۔ ایک اچھا مسلمان تھا ۔ ہم نے اپنی ہی بیٹی کی طرح اس کی شادی کا انتظام کیا اور نہایت عزت کے ساتھ اس کی رخصتی کردی ۔شیرینئ اور امجد کی شادی کو تین سال گزرے ہونگے کہ ایک دن اچانک اس کے باپ کا فون آیا۔ اور جو گالی گلوچ اس کے منہ سے نکل سکی مجھے اس سے نوازا۔ مجھےکچھ کہنے کاموقعہ ہی نہیں دیا اور فون بند کردیا ۔میں حیران اس بات پر ہوا کہ یہ تو امریکہ چلا گیا تھا مگر یہ فون نمبر تو ٹورانٹو کا تھا ۔ پھر سوچا شائد سیر تفریح کیلئے ٹورانٹو آیا ہو ۔ بیٹی کی شادی کی اطلاع مل گئی ہو۔ ظاہر ہے سارا عتاب مجھ پر ہی گرنا تھا۔اس کا ایک رشتہ دار امیر خان، ٹورانٹو میں رہتا تھا اس کا فون نمبر تلاش کرکے اسے فون کیا بہت حیران ہوا ۔ کہنے لگا سالوں بعد میری یاد کیسے آگئی ؟ میں نے اسے بتایا کہ آج افضل خان کا فون آیا تھا۔ وہ ٹورانٹو کب آیا ہے ؟تو اس نے بتایا کہ وہ تو دو سال سے یہاں ہے ۔بیمار ہے ۔ کینسر کے مرض میں غریب مبتلا ہے ۔ ویلفیر پر زندگی گزار رہا ہے ۔غریب علاقے میں ایک سستے کمرے میں کرائے پر رہتا ہے ۔میں نے پوچھا یہ کیسے ہوا ۔ اور اس کا بیٹا ؟اس نے بتایا کہ بیٹا تو ٹیکساس میں بہت بڑا ڈاکٹر ہے ۔ کمائی کا کوئی حساب نہیں ۔ باپ نے اس کی شادی پختون خوا کےایک اونچے اور معزز گھرانے میں کی ہے ۔ ٹیکساس کے مشہور پوش علاقے میں بہت بڑا گھر ہے ۔ گھر کیا محل ہے ۔مگر باپ کیلئے اس گھر میں جگہ نہیں۔بیوی کو اسی دکھ نے زندگی سے محروم کردیا۔بہو اسےکہتی تھی تم دن رات کھانستے رہتے ہو ۔ ہمارے ہاں بڑے بڑے معزز مہمان آتے ہیں وہ کیا سوچتے ہونگے ۔میں نے اسے کہا، کل جمعہ ہے نماز کے بعد تمہاری طرف آؤنگا۔ بیوی کوسارا ماجرا سنایا اور آپس میں مشورہ کیا کہ کیا کرنا چاہئے ۔ دوسرے دن امیر خان کے گھر گیا اور اسے شیرینئ کے متعلق حالات سے آگاہ کیا ۔اور اسے بتایا کہ شیرینئ اسی شہر میں ہے ۔تو امیر خان نے کہا کہ اس نے بیٹی کے ساتھ جو سلوک کیا ہےتو وہ اس کو کیوں پوچھے گی ۔میں نے اسے کہا یہ فیصلہ شیرینئ پر چھوڑ دو۔ پہلے ہم دونوں اس سے ملتے ہیں پھر شیرینئ کو ملانے لے جائنگے۔دوسرے دن میں اور امیر خان اس سے ملنےاس کے کمرے میں گئے ۔ اس کاحال جو دیکھا اللہ معاف کرے ۔ کسی دشمن کو بھی یہ دن نہ دکھائے۔اس نے امیر خان کو تو پہچان لیا ۔ اس سے پوچھا یہ تمہارے ساتھ دوسرا آدمی کون ہے ؟امیر خان نے کہا ۔ پہچانا نہیں ۔ تمہارا دوست سلیم جان ہے نا ۔میرا نام سنتے ہی جیسے اسے آگ لگ گئی ۔ تڑپ کر کہا ، میرے دشمن کو یہاں کیوں لائے ہو فوراـَ نکالو اسے میرے کمرے سے۔امیر خان نے اسے ذرا ٹھنڈا کیا اور بتایا کہ تمہاری بیٹی شیرینئ اسی شہر میں ہے تو ایک بار پھر بھڑک اٹھا ۔ میری کوئی بیٹی نہیں ۔ تھی اب مر چکی ہے ۔ اس نے پہلے ہی میری عزت خاک میں ملا دی ہے ۔ اس کیلئے باقی کیا بچا ہے ۔ میرے سامنے اس کا نام مت لو۔اب امیر خان اس کے ساتھ کچھ سختی سےبولا۔ دیکھو افضل خان تمہاری ٹانگیں قبر میں لٹک رہی ہیں ۔ موت تمہارے سر پرمنڈلا رہی ہے ۔آج نہیں تو کل تم مٹی کے نیچے ہمیشہ کیلئے دب جاؤگے ۔تم بیٹی کو دیکھنا نہیں چاہتے تو مت دیکھو مگر اسے تو اپنے باپ کو مرنے سے پہلے دیکھ لینے دو۔ابھی ہم چلتے ہیں ایک دو روز بعد پھر آئینگے۔افضل خان نے کوئی جواب نہ دیا اور ہم واپس لوٹ آئے۔میں بڑی مشکل میں پھنس گیا کہ شیرینئ کو اس کی ماں کی موت کی خبر، باپ کی اس شہر میں موجودگی اور بیماری کا حال کیسے بتایا جائے ۔میں نے دونوں بیٹیوں کو بلا کر مدد کیلئے کہا ۔ دونوں نے ذمہ لیا کہ میں بے فکر ہو جاؤں۔اور اسی وقت شیرینئ کو فون کیا کہ شام کا کھانا بابا کے گھر ہے ۔ دونوں میاں بیوی فوراَِ پہنچوَ۔ کباب بن رہے ہیں ٹھنڈے ہو جائنگے۔آدھا گھنٹہ نہیں گزرا تھا کہ ڈرائیوے میں ان کی کار رکنے کی آواز آئی ۔ سب نے مل کر ہنسی خوشی کھانا کھایا ۔پھر میری بیٹی نے شیرینئ سے کہا تمہارے لئے ایک خبر ہے ۔ تمہارا باپ آج کل ٹورانٹو میں ہے ۔ ملنے کو دل چاہتا ہے۔شیرینئ تڑپ کر بولی ۔ کہاں ہے ؟ تم لوگوں نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا ۔کب آیا ہے ۔ میرا تو نہیں پوچھا ہوگا۔ نہ بھی پوچھا ہو تو کوئی بات نہیں ۔مجھے ابھی ان کے پاس لے چلو۔میری بیٹی نے کہا ۔ ابھی تو نہیں لے جاسکتے ۔ ان کی طبیعت ذرا ٹھیک نہیں ۔کیوں ہسپتال میں ہے ؟ بڑی پریشانی سے پوچھانہیں ہسپتال میں نہیں ۔ ایک دوست کے گھر ہے۔ بیٹی نے بتایا۔کیا ہوا ہے ان کو ۔ مجھے بتاتے کیوں نہیں ہو۔بیٹی نے جواب دیا ۔ ہمیں اس سے زیادہ خود پتہ نہیں ۔ ان کے دوست کا فون آیا تھا ۔ کہ کل آجانا ۔پھر چھوٹی بیٹی بولی ۔ ایک اور خبر بھی ہے ۔کوئی اتنی خوشگوار خبر نہیں اگر سہنے کی ہمت ہے تو !تو شیرینئ نے ایک دم سے پوچھا ۔میری ماں تو ٹھیک ہے نا ؟اور میری بیٹی کا دل بھر آیا ۔ منہ دوسری طرف پھیر کر رونی آواز میں کہا ۔تمہاری ماں اس دنیا کو چھوڑ گئی ہیں۔شیرینئ چیخ پڑی ۔ نہیں یہ نہیں ہو سکتا ۔ تم سب جھوٹ بول رہے ہو ۔اور بیہوش ہو کر صوفے پر ڈھیر ہو گئی۔اسی شام امیر خان کو فون کیا کہ جاکر افضل خان کو کسی طرح اپنے گھر لے آؤ۔ اور شیرینئ کا سارا حال بھی بتا دیا ۔دوسرے روز شیرینئ، اس کا شوہر امجد اور میں دوپہر تک امیر خان کے گھر پہنچ گئے ۔باپ کو دیکھتے ہی شیرینئ کی چیخ نکل گئی اور روتے ہوے باپ سے چمٹ گئی ۔ کچھ دیر تک افضل خان کو کچھ سمجھ نہیں آئی کہ یہ کیا ہو رہا ہے ۔حیران آنکھوں سے کبھی ایک کو کبھی دوسرے کو دیکھتا رہا ۔امیر خان نے اسے کہا ۔جاگ جاؤ افضل خان۔ آنکھیں کھول کر دیکھو تمہاری بیٹی آئی ہے۔میرا بیٹا کہاں ہے وہ نہیں آیا ؟ افضل خان نے کھوئی کھوئی نظروں سے سب کو دیکھتے ہوے کہاامیر خان نے اسے جواب دیا ۔ تمہارا بیٹا نہیں آئیگا ۔ بیٹی تمہیں اپنے گھر لے جانے کیلئے آئی ہےافضل خان جیسے مدہوشی کی حالت میں کہہ رہا ہو۔ میں بیٹے کے گھر جاؤنگا۔امیر خان نے غصے سے کہا ۔ بیٹا، بیٹا، بیٹا ۔۔۔۔۔۔۔ بیٹے نے گھر سے نکال دیا ہے اور بیٹی گھر لے جانے آئی ہے۔ آنکھیں کھول کر دیکھو ۔نہیں میرا بیٹا برا نہیں ۔ ذرا عورتوں کے بہکانے میں آگیا ہے۔امجد نے کہا۔ بابا میں بھی آپ کا بیٹا ہوں ۔ میں کسی کے بہکاوے مین نہیں آؤنگا۔شیرینئ نے کہا ۔ بابا چھوڑو باتیں ۔ اٹھو گھر چلیں۔افضل خان ایک بار پھر شیرینئ کو یوں دیکھنے لگا جیسے اسے پہچاننے کی کوشش کر رہا ہو۔امیر خان نے اسے کہا۔ ٹھیک ہے اگر تم بیٹی کے ساتھ نہیں جاؤگے تو میں تمھیں اس غلیظ کمرے میں پھر سے پھینک آؤنگا ۔ وہاں اکیلے پڑے سڑتے رہنا ۔ تمہیں وہاں پوچھنے کوئی نہیں آئیگا۔افضل خان کچھ دیر خاموش بیٹھا رہا ۔پھر جیسے سیلاب کے آگے باندھے تمام بند ٹوٹ پڑے اور وہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔ شیرینئ اس کی طرف لپکی مگر میں نے اشارے سے اسے روک دیا ۔کہ صبر کرو۔ وہ کچھ دیر تک خوب رویا ۔ جب دل ہلکا ہوا اورخاموش ہوگیا ۔ تو شیرینئ اس کے پاس بیٹھ گئی ۔ خود روتی رہی اور باپ کے آنسو پونچھتی رہی ۔ جب طوفان گزر گیا اور سکون ہو گیا تو ہاتھ اٹھا کر بیٹی کے آنسو پونچھنے لگا۔ اور اسے سینے سے لگایا۔ پھر شیرینئ کا ہاتھ پکڑ کر کہنے لگا ۔مجھے اٹھاؤ گھر چلیں۔ دوسرا ہاتھ امجد نے پکڑ کر اٹھایا اور تینوں کار کی طرف چل پڑے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
--
تاج رحيم
--
تاج رحيم
Friday, November 21, 2014
Fw: جاوید چوہدری کے چاہنے والے پڑھے لکھے لوگوں کے لیے
Thursday, October 23, 2014
میرے دامن میں سسکیوں کے سوا کچھ نہیں مجھے رونے دو
ماشاءالله ذرا دیکھۓ..... شیئر آپ خود کریں گے
پلیز شیئر ضرور کریں. جزاک اللہ خیرا
اللہ عزوجل کی رضا پانے اور ثواب کمانے کی نیت سے اس وڈیو کو دیکھیں اور شئیر کریں
اچھی بات پھیلانا صدقہ جاریہ ہے.ﺟﺰﺍﮎ ﺍﻟﻠﮧ خیرا
جب آپ شیئر کریں گے تو شیطان مردود آپ کو روکے گا
Tuesday, September 30, 2014
آپریشن بیدار: ونگز اوور چاغی
آپریشن بیدار: ونگز اوور چاغی....!!!!!
تحریر تھوڑی لمبی ضرور ھے مگر انشاءالله آپ کا وقت ضائع نھیں ھوگا
___________________________________________________
سات جون 1981 میں بغداد کے جنوب میں موجود فرانس کے تعاون سے بننے والے عراقی نیوکلئیر ری ایکٹر سائٹ "تموز 1" پر ہونے والے اسرائیلی فضائی حملے کے بعد پاکستان کو یہ احساس ہو گیا تھا کہ اسرائیل کے اگلے ایڈونچر کا نشانہ پاکستان ہی ہو گا۔
کہوٹہ پر حملے کا منصوبہ عراقی ری ایکٹر پر حملے کے منصوبے کا ہی ایک حصہ تھا اور پلان کے مطابق اگر عراقی ری ایکٹر پر حملہ کامیاب رہتا تو اسرائیل پاکستانی ری ایکٹر پر بھی حملہ کرنے کے منصوبے کو آگے بڑھاتا۔ عراقی تنصبات پر ہونے والا حملہ کامیاب رہا تو اسرائیل نے منصوبے کو حتمی شکل دینی شروع کر دی۔ حملے کے لیے اسرائیل کے پاس دو آپشنز تھے۔ پہلا یہ کہ اسرائیلی طیارے انڈیا میں آتے اور وہاں سے فیول لینے کے بعد اڑ کر پاکستان پر حملہ کرتے۔ دوسرا آپشن یہ تھا کہ اسرائیلی طیاروں کے ساتھ ہوا میں ہی ایندھن بھرنے والا طیارہ ساتھ آتا اور جہاں ایندھن ختم ہوتا وہاں اسرائیلی طیاروں کو ایندھن بھر دیتا۔ پلان کے مطابق حملے کے وقت اسرائیل کے اواکس طیارے کو پاکستانی کے ریڈار جام کرنا تھے تاکہ پاکستانی ائیرفورس ان کی راہ میں رکاوٹ نہ بنتی۔
اس دوران انڈیا نے اپنی طرف سے اسرائیل کو بہت منانے کی کوشش کی اسرائیل پاکستانی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کرے لیکن اسرائیل کا اصرار تھا کہ ان کے طیارے پہلے انڈیا کے اڈے پر اتریں گے اور فیول لینے کے بعد حملہ کریں گے جبکہ انڈیا اس پر تیار نہیں تھا کیونکہ اس طرح انڈیا اس حملے میں حصے دار بن جاتا اور پاکستان کے ساتھ جنگ شروع ہو سکتی تھی۔
آسٹریلین انسٹیٹوٹ آف اسٹریٹیجک اسٹڈیز کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی حملے کا منصوبہ بھارت کی وجہ سے 1982 میں مکمل نہ ہو سکا کیونکہ بھارت یہ تو ضرور چاہتا تھا کہ کہوٹہ تباہ کر دیا جائے لیکن وہ اس حملے کی ذمہ داری اور اس کے بعد پاکستان کے جوابی حملے کا سامنا کرنے کو تیار نہیں تھا۔ جبکہ اسرائیل چاہتا تھا کہ اس حملے کا الزام اسرائیل اور انڈیا مل کر اٹھائیں۔ دوسری جانب امریلی صدر رونالڈ ریگن کی حکومت بھی ایسے کسی حملے کی مخالف تھی۔ کیونکہ تب پاکستان افغانستان میں روسی فوجوں کے خلاف لڑ رہا تھا اس دوران اگر پاکستان پر اسرائیلی حملہ ہو جاتا تو یقیناً پاکستان روس کو چھوڑ کر انڈیا اور اسرائیل سے الجھ پڑتا جس سے افغانستان میں روس کے قدم جم جاتے۔
اسرائیلی حملے کے منصوبے پر آخری مہر پاکستان کی حکومت نے تب لگا دی جب پاکستانی میراج طیاروں نے اسرائیل کی صحرائے نجف میں موجود دیمونہ نیوکلئیر تنصیبات تک پہنچ جانے کی ایک کامیاب کوشش کرتے ہوئے اسرائیل کو ایک واضح پیغام دیا جو کہ سفارتی ذرائع سے بھی اسرائیلی حکومت تک پہنچا دیا گیا کہ اگر کہوٹہ پر حملہ ہوا تو پاکستان اسرائیل کی دیمونہ ایٹمی تنصیبات کو مٹی کا ڈھیر بنا دے گا۔
لیکن پاکستان کوئی چانس نہیں لے سکتا تھا اس لیے 1981 میں عراقی ایٹمی ری ایکٹر پر حملے کے بعد پاکستان کے صدر ضیا الحق نے پاکستان ائیرفورس کے ہیڈکوارٹرز کو اسرائیلی حملے کو ذہن میں رکھتے ہوئے پلانز بنانے کی ہدائت کی۔ جس کے بعد پاکستان کے ائیر چیف نے ائیر ٹاسکنگ آرڈرز جاری کرتے ہوئے ائیرڈیفنس چیف کو کہوٹہ کی حفاظت کے لیے پلانز بنانے کا حکم جاری کیا اور ساتھ ہی اسرائیلی دیمونہ ری ایکٹر پر حملے کا پلان بنانے کا بھی حکم دیا۔ جس کے بعد ائیر ہیڈکوارٹرز چکلالہ اسلام آباد میں ایک خاص آپریشنز روم بنا دیا گیا جس میں ائیرڈیفنس کی ساری صورتحال کو مانیٹر کیا جاتا تھا۔ 10 جولائی 1982 کو پاکستان ائیرفورس نے اسرائیل کی دیمونہ ایٹمی تنصیبات پر میراج طیاروں کی مدد سے حملے کی صلاحیت کا مظاہرہ کیا اور 1983 میں ایف 16 طیاروں کی آمد کے بعد انہیں بھی اس اسپیشل اسٹرائیک فورس میں شامل کر لیا گیا۔
اس سارے پس منظر میں 13 مئی 1998 کو انڈیا کے ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان کو بہت سخت خدشہ تھا کہ اسرائیل اور انڈیا اپنے سابقہ پلان کے تحت پاکستانی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کر سکتے ہیں۔ لہٰذا پاکستان ائیرفورس انتہائی زیادہ الرٹ حالت میں تھی۔ سفارتی سطح پر ٹینشن اس قدر زیادہ تھی کہ بلوچستان میں راس کوہ ٹیسٹ سائٹ پر اڑتے ہوئے ایک پاکستانی ایف 16 طیارے کو گہرے بادلوں کی وجہ سے زمینی دستوں نے اسرائیلی طیارہ سمجھ لیا اور اس سے پہلے کہ اس چیز کو پاکستان ائیرفورس کنفرم کرتی یہ خبر امریکہ میں پاکستانی سفیر تک پہنچ چکی تھی جس نے خفیہ طور پر اسرائیلی سفارت خانے کو انتہائی سخت پیغام بھیجا جس پر امریکہ میں اسرائیلی سفیر کو پبلک میں وضاحت کرنا پڑی کہ ہمارا پاکستان پر حملے کا کوئی پلان نہیں ہے۔
اسی دن اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر احمد کمال نے سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں مصدقہ اطلاعات ہیں کہ بھارت اور اسرائیل پاکستان کی ایٹمی تنصیبات پر حملے کی خواہش رکھتے ہیں اور اگر ایسا ہوا تو پاکستان کا جواب انتہائی سخت اور عالمی امن کے لئے انتہائی نقصان دہ ہو گا۔
اس کے بعد جیسے ہی پاکستان نے اپنے جوابی ایٹمی دھماکوں کا فیصلہ کیا تو پاکستان ائیرفورس کو چاغی کے ساتھ ساتھ کہوٹہ خوشاب فتح جنگ نیلور چشمہ اور کراچی کی ایٹمی تنصیبات کی فضائی نگرانی کی بھی اضافی ذمہ داری دے دی گئی۔
آپریشن بیدار 98:
پاکستان کے ایٹمی دھماکوں سے پہلے پاکستانی ہوائی حدود کی مسلسل نگرانی کو آپریشن بیدار کا نام دیا گیا۔ جس میں چاروں جانب نگرانی کے لیے چار سیکٹرز تشکیل دئیے گئے جنہیں اسلام آباد پشاور سرگودھا کوئٹہ اور کراچی سے کنٹرول کیا جا رہا تھا۔
نمبر 6 سکواڈرن جو کہ سی 130 طیاروں سے لیس تھا جس کا کام سامان پہنچانا تھا اس نے اس مشن کے دوران 71 مختلف فلائٹس میں 12،66،615 پاؤنڈ سامان چاغی پہنچایا۔
نمبر 7 ٹیکٹیکل اٹیک سکواڈرن جو کہ میراج طیاروں سے لیس تھا اسے مسرور ائیر بیس کراچی سے شہباز ائیر بیس جیکب آباد بلوچستان منتقل کر دیا گیا تاکہ وہ چاغی کے ایریا میں چوبیس گھنٹے ائیر ڈیفنس ڈیوٹی دے سکے۔
نمبر 9 ملٹی رول سکواڈرن جو کہ ایف 16 طیاروں سے لیس تھا اسے سرگودھا سے ہٹا کر سمنگلی ائیر بیس کوئٹہ بھیج دیا گیا تاکہ بلوچستان کے ایریا کو کوور کیا جا سکے اور رات کو ان علاقوں میں پہرہ دیا جا سکے۔
نمبر 11 سکواڈرن جو کہ ایف 16 طیاروں سے لیس تھا اسے 24 مئی کو سرگودھا سے ہٹا کر جیکب آباد بلوچستان بھیج دیا گیا۔
نمبر 14 سکواڈرن کے ایف 7 طیاروں کو چکلالہ ائیر بیس بھیج کر کہوٹہ کے علاقے کی حفاظت کا مشن دیا گیا۔
نمبر 17 سکواڈرن کے ایف 6 طیاروں کو پاکستان کے بارڈرز کے ساتھ ساتھ ہوائی پہرے داری اور گشت لگانے کی ذمہ داری دی گئی۔
اسی کے ساتھ پاکستان ائیرفورس کے پاس موجود تمام ریڈار یونٹس کو اس طرح پھیلایا گیا کہ ایٹمی تنصیبات اور ایٹمی دھماکوں کی ٹیسٹ سائٹ کے آس پاس ایک مکمل گھیرا بن گیا۔
اس سارے مشن کے دوران دالبندین ائیر پورٹ نے بہت شہرت حاصل کی جو کہ چاغی سائٹ سے صرف 30 کلو میٹر دور تھا اور تمام سامان اسی چھوٹے سے ائیرپورٹ پر اتارا جاتا تھا
پاکستان کا ایٹم بم مختلف حصوں کی شکل میں دو سی 130 طیاروں کے ذریعے دالبندین پہنچا تھا۔ ان سی 130 طیاروں کو پاکستانی حدود کے اندر بھی پاکستان کے ایف 16 طیاروں نے اپنے حفاظتی حصار میں لے رکھا تھا جو فضا سے فضا میں مار کرنے والے میزائیلوں سے لیس تھے جبکہ اس دوران پاکستان انڈیا بارڈر کے ساتھ ساتھ ایف 7 طیارے میزائیلوں سے لیس چوبیس گھنٹے گشت لگاتے رہے تھے تاکہ کوئی بھی بیرونی طیارہ ہماری حدود میں داخل نہ ہونے پائے۔
یہ مشن اس قدر سیکرٹ تھا کہ یہ تک سوچا گیا کہ اگر ایٹم بم لے جانے والا طیارہ اغوا ہو گیا تو کیا ہو گا۔ جس پر ایف 16 کے پائلٹوں کو ایک خفیہ آرڈر جاری کیا گیا کہ اگر ایٹم بم والا سی 130 ہائی جیک ہو جائے یا پاکستانی حدود سے باہر جانے کی کوشش کرے تو بنا کچھ سوچے اسے ہوا میں ہی تباہ کر دیں۔ اور اس دوران ایف 16 طیاروں کے ریڈیو آف کروا دئیے گئے تاکہ مشن کے دوران انہیں کوئی بھی کسی بھی قسم کا حکم نہ دے سکے۔ پائلٹوں کو یہ بھی کہہ دیا گیا تھا کہ ان کے آرڈرز فائنل ہیں۔ اگر مشن کے دوران انہیں ائیر چیف بھی آرڈرز بدلنے کا حکم دے تو اسے انکار کر دیں۔
جب 30 مئی 1998 کو پاکستان کے چھٹے ایٹمی دھماکے سے زمین کانپی تو آپریشن بیدار 98 بھی کامیابی کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچا۔
گروپ کیپٹن حسیب پراچہ
جو کہ پاکستان کے ایف 16 طیاروں کے بہترین پائلٹ اور سب سے زیادہ تجربہ کار پائلٹ ہیں۔ یہ پہلے سرگودھا میں سکواڈرن کمانڈر تھے جبکہ اب خبر سننے میں آ رہی ہے کہ امریکہ سے خریدے گئے نئے ایف 16 طیاروں کے بیس کی کمانڈ ان کو دی جا رہی ہے۔ حسیب پراچہ ایف 16 کی اس فارمیشن کو لیڈ کر رہے تھے جس نے اپنی نگرانی میں ایٹم بم چاغی تک پہنچایا تھا۔
#Striker
Monday, September 22, 2014
Shall we over use the hand held devices? Or even the lap tops?
September 21, 2014
Steve Jobs Didn't Let His Kids Use iPhones Or iPads: Here's Why

Steve Jobs is a name which is synonymous with cutting edge, innovative and groundbreaking technology.
So it may come as something as a surprise to learn Apple's former CEO didn't believe in letting his kids use some of his company's greatest products – the iPhone and the iPad.
And it's not because the Apple godhead was a closet Samsung fan either.
Jobs, who died in 2011, may have had an instinctive flair for technology but he was a low tech parent who firmly believed in restricting his children's access to electronic devices.
"We limit how much technology our kids use at home," said Jobs way back in 2010, expressing growing concerns about his children's gadget use.
As all modern parents know, iPhones and iPads are extremely appealing to children. These little hand-held devices are state-of-the-art toys. Surrogate parents almost, capable of entertaining, distracting, and pacifying children during school holidays and on long car journeys when mom and dad's attentions are focused elsewhere.
Yet instead of thanking Apple for these extremely convenient parent assistants, should we actually be concerned about the potential harm they may be inflicting upon our youngsters?
Steve Jobs certainly appeared to think so. In a New York Times article published this week, journalist Nick Bilton recalls how he once put it to Jobs that his kids must love the iPod, but to his surprise Jobs replied, "They haven't used it. We limit how much technology our kids use at home."
"I'm sure I responded with a gasp and dumbfounded silence. I had imagined the Jobs's household was like a nerd's paradise: that the walls were giant touch screens, the dining table was made from tiles of iPads and that iPods were handed out to guests like chocolates on a pillow. Nope, Mr. Jobs told me, not even close."
And Jobs wasn't the only technological guru who had substantial concerns about the long-term effects of kids engaging with touch-screen technology for hours on end.
Chris Anderson, former editor of Wired, also believes in setting strict time limits and parental controls on every device at home.
"My kids accuse me and my wife of being fascists. They say that none of their friends have the same rules. That's because we have seen the dangers of technology first hand. I've seen it in myself, I don't want to see that happen to my kids."
Researchers at the University of California Los Angeles recently published a study which demonstrated that just a few days after abstaining from using electronic gadgets, children's social skills improved immediately.
Which is definitely food for thought considering recent research showed that an average American child spends several hours daily using smart-phones and other electronic screens.
Jobs was undoubtedly a genius but he didn't get that way through staring at screens and playing Angry Birds until the early hours or constantly updating his Facebook account.
Walter Isaacson, the author of Steve Jobs, spent a lot of time at the Apple co-founder's home and confirmed that face-to-face family interaction always came before screentime for Jobs.
"Every evening Steve made a point of having dinner at the big long table in their kitchen, discussing books and history and a variety of things. No one ever pulled out an iPad or computer. The kids did not seem addicted at all to devices."
So the next time the advertising department at Apple, Samsung, or any other major technological corporation attempt to sublimely convince you that life is somehow lacking without their latest little device, remember that the man who started it all, believed somewhat differently.
Read more at http://www.inquisitr.com/1468612/steve-jobs-didnt-let-his-kids-use-iphones-or-ipads-heres-why/#oowaBYpa9S0oJrIy.99
Sent from my BlackBerry® Smartphone provided by Ufone
Friday, August 29, 2014
Protest of PTI and PAT.
2- Inflation
3- Corruption
4- Law & Order situation in Pakistan
5- Reduce Electricity RATES which is more important issue.
6- Reduce Load shedding
7- Jobs and working environment. etc etc.
Wednesday, August 27, 2014
Imran talk about Karachi and Sindh Election?
I think personally PMLN come on front foot and react like PPP had done in his last 5 years tenure and complete successfully his tenure with attacking or front foot position, and no party in Pakistan courage to talk against PPP in their tenure.
Government must comply their rules and regulation from nation by force. If government react like PMLN then there is no chance for PMLN to complete their tenure.
Watch how Imran supporter is not talking about MQM and PPP rigging in Sindh and Karachi due to their fear...https://www.facebook.com/video.php?v=10152383361214527&set=vb.151626539526&type=2&theater
Friday, August 22, 2014
شرم و حیا
کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے میں شہر کے ایک بڑے چوراھے پر ٹریفک سگنل کے کھلنے کا انتظار کر رہا تھا
میرے پیچھے ایک گاڑی آکر رک گئی گاڑی ایک خاتون ڈرائیو کر رہی تھیں جنہوں نے حجاب کر رکھا تھا .
میرے برابر ھی موٹرسائیکل پر دو نوجوان بھی کھڑے تھے . ایک نے پیچھے مڑ کر خاتون کو دیکھا اس کے بعد اس نے اپنے آگے والے کو آہستہ سے کچھ کہا وہ بھی پیچھے کو گردن گھما کر دیکھنے لگا
اور پھر دونوں آپس میں آہستہ آہستہ باتیں کرتے ہوئے مسکرانے لگے ان کی نظروں کے تعاقب میں اردگرد موجود کچھ اور مرد حضرات بھی خاتون کو گہری نظروں سے گھورنے لگے .
میری نظر اس خاتون کے چہرے کی جانب اٹھی تو میں نے واضح طور پر عورت کے ھاتھوں میں کپکپاہٹ اور آنکھوں میں شدید کرب کی پرچھائیاں دیکھی .خود میری کیفیت یہ تھی کہ مجھے لگ رہا تھا جیسے کسی شرم حیا والی عورت کو بیچ بازار بے پردہ کر دیا گیا ھو .
میری قوم کے سپوت کسی ضروری کام کی خاطر گھر سے نکلنے والی ایک شریف اور باپردہ خاتون کو نظروں ھی نظروں میں کچا چبا جانے کے انداز میں دیکھ رہے تھے .
یہ واقعہ چند سیکنڈوں کا تھا مجھے لگا ان چند سیکنڈوں میں میری قوم کی تمام بہنوں بیٹیوں کے سروں سے میری قوم کے بیٹوں نے شرم و حیا کی چادر نوچ کر پھینک دی ھو .
مجھے خرابی کی سمجھ نہیں آ رہی تھی خرابی اس خاتون کے گھر سے نکلنے میں تھی ؟ خرابی ایک عورت کے ڈرائیو کرنے میں تھی ؟
یا خرابی ہم سب کے ڈی این اے میں ہے جو شرم و حیا سے محروم ہوچکا ہے...!!!
Reality of Life
رشتے اور دوستیاں استوار کرنے کے معاملے میں ہم اگر دوسروں کے ساتھ زبردستیاں کرنی چھوڑ دیں تو ذندگی قدرے آسان ہو سکتی ھے۔
ھم ذندگی کے داخلی اور خارجی راستوں پر پہرے نہیں بٹھا سکتے۔
بس جو آئے اس کو خوش دلی سے خوش آمدید کہیں
اور جو جانا چاھے اسے الوداع کہہ کر رخصت کر دیں، یہی اعلی ظرفی ھے۔۔
کیونکہ اگر یہ طے پا چکا ھے تو یہ ہو کر رھے گا۔
ہماری زبردستی سوائے ہمیں تکلیف میں مبتلا کرنے کے اور کچھ نہیں کر سکتی۔
Thursday, August 21, 2014
RE: **JP** محبت
Very well observed; and is quite conclusive to know other end of the love.
BR
Farooq
From: joinpakistan@googlegroups.com [mailto:joinpakistan@googlegroups.com] On Behalf Of JoinPakistan
Sent: Wednesday, August 20, 2014 10:48 PM
To: JP
Cc: PostPakistan
Subject: **JP** محبت
ایک دفعہ میں ایک دوست کے ساتھ چڑیا گھر گیا بندر کے پنجرے میں دیکھا کہ وہ اپنی بندریا سے چمٹا محبت کی اعلیٰ تفسیر بنا بیٹھا تھا۔ تھوڑا آگے جا کرشیر کے پنجرے کے پاس سے گزر ہوا تو معاملہ الٹ تھا، شیر اپنی شیرنی سے منہ دوسری طرف کیئے خاموش بیٹھا تھا۔ میں نے دوست سے کہا کہ بندر کو اپنی مادہ سے کتنا پیار ہے اور یہاں کیسی سرد مہری ہے؟
دوست نے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور کہا؛ اپنی خالی بوتل شیرنی کو مارو۔ میں نے بوتل پھینکی تو شیر اچھل کر درمیان میں آگیا۔ شیرنی کے دفاع میں اسکی دھاڑتی ہوئی آواز کسی تفسیر کی طالب نہ تھی۔ میں نے ایک بوتل جا کر بندریا کو بھی ماری یہ دیکھنے کو کہ بندر کا ردعمل کیا ہوتا ہے، بوتل اپنی طرف آتے دیکھ کر بندر اپنی مادہ کو چھوڑ کر اپنی حفاظت کیلئے اچھل کر کونے میں جا بیٹھا۔
میرے دوست نے کہا کہ کچھ لوگ شیر کی طرح ہی ہوتے ہیں؛ ان کی ظاہری حالت پر نہ جانا، ان کے پیاروں پر بن پڑے تو اپنی جان لڑا دیا کرتے ہیں، مگر ان پر آنچ نہیں آنے دیتے۔
اور کچھ لوگ جو ظاہرا" بہت محبت جتاتے ہیں لیکن وقت آنے پر یوں آنکھیں پھیر لیتے ہیں جیسے کہ جانتے ہی نہ ہوں
--
--
You received this message because you are subscribed to the Google
Groups "JoinPakistan" group.
You all are invited to come and share your information with other group members.
To post to this group, send email to joinpakistan@googlegroups.com
For more options, visit this group at
http://groups.google.com.pk/group/joinpakistan?hl=en?hl=en
You can also visit our blog site : www.joinpakistan.blogspot.com &
on facebook http://www.facebook.com/pages/Join-Pakistan/125610937483197
---
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "JoinPakistan" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to joinpakistan+unsubscribe@googlegroups.com.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.
This email is free from viruses and malware because avast! Antivirus protection is active. |
Wednesday, August 20, 2014
محبت
ایک دفعہ میں ایک دوست کے ساتھ چڑیا گھر گیا بندر کے پنجرے میں دیکھا کہ وہ اپنی بندریا سے چمٹا محبت کی اعلیٰ تفسیر بنا بیٹھا تھا۔ تھوڑا آگے جا کرشیر کے پنجرے کے پاس سے گزر ہوا تو معاملہ الٹ تھا، شیر اپنی شیرنی سے منہ دوسری طرف کیئے خاموش بیٹھا تھا۔ میں نے دوست سے کہا کہ بندر کو اپنی مادہ سے کتنا پیار ہے اور یہاں کیسی سرد مہری ہے؟
دوست نے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور کہا؛ اپنی خالی بوتل شیرنی کو مارو۔ میں نے بوتل پھینکی تو شیر اچھل کر درمیان میں آگیا۔ شیرنی کے دفاع میں اسکی دھاڑتی ہوئی آواز کسی تفسیر کی طالب نہ تھی۔ میں نے ایک بوتل جا کر بندریا کو بھی ماری یہ دیکھنے کو کہ بندر کا ردعمل کیا ہوتا ہے، بوتل اپنی طرف آتے دیکھ کر بندر اپنی مادہ کو چھوڑ کر اپنی حفاظت کیلئے اچھل کر کونے میں جا بیٹھا۔
میرے دوست نے کہا کہ کچھ لوگ شیر کی طرح ہی ہوتے ہیں؛ ان کی ظاہری حالت پر نہ جانا، ان کے پیاروں پر بن پڑے تو اپنی جان لڑا دیا کرتے ہیں، مگر ان پر آنچ نہیں آنے دیتے۔
اور کچھ لوگ جو ظاہرا" بہت محبت جتاتے ہیں لیکن وقت آنے پر یوں آنکھیں پھیر لیتے ہیں جیسے کہ جانتے ہی نہ ہوں
Friday, August 15, 2014
دوسری عورت کے ساتھ ڈیٹ
شادی کے اکیس برس کے بعد آخر میری بیوی کے دل میں نیکی لہرائی کچھ کہنے سے پہلے وہ جھجکی،شرمائی
اپنے دل کی وسعت پر تھوڑا اِترائی
پھر بولی
آج اس عورت کو تم ڈیٹ پہ لے جاؤ
جو تمہاری چاہت میں دیوانی ہے
جس کی بھیگی آنکھوں میں ویرانی ہے
مجھ کو تم سے پیار بہت ہے
تم سے دو لمحے کی دُوری،گو کارِ دشوار بہت ہے
پر میرا دل نرم بہت ہے
آنکھوں میں بھی شرم بہت ہے
اور اس بات کا علم ہے مجھ کو
وہ عورت بھی تم سے ملنے کی طالب ہے
چاہ تمہاری اس کے دل پر بھی غالب ہے
وہ تنہا ہے ،دوری کا دکھ سہتے سہتے اُوب چکی ہے
اکلاپے کے ساگر میں وہ چپکے چپکے ڈوب چکی ہے
میری بیوی نے جس عورت سے ملنے کی چھٹی دی تھی
میری ماں تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو پچھلے اُنیس برس سے بیوہ تھی تنہا رہتی تھی
اور میں اپنے بیوی بچوں ،کام اور دھندوں
کی ڈوری سے بندھا ہوا تھا
اس سے کم ہی مل پاتا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فون کیا جب میں نے اس کو
رات کے کھانے کی دعوت دی
وہ حیران سی ہو کر بولی
اللہ تم کو خیر سے رکھے،آج تمہاری طبیعت شائد ٹھیک نہیں ہے
میں شرمندہ ہو کر بولا
ماں میں بالکل ٹھیک ہوں فٹ ہوں
صرف تمہارے ساتھ کچھ اچھا وقت بِتانے کی خواہش ہے
گھومیں گے کھانا کھائیں گے اور بہت سی باتیں ہوں گی
پیاری ماں ہم دونوں ہوں گے بس ہم دونوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اک لمحہ سوچ کے بولی
ٹھیک ہے بیٹے ،شام کو میں تیار رہوں گی
کام سے فارغ ہو کر جب میں اپنی ماں کو لینے پہنچا
مجھ کو یوں محسوس ہوا میں نروس سا ہوں
ماں بھی بے حد خوش تھی لیکن نروس سی تھی
ہلکا نیلا سُند جوڑا میری ماں کے زیبِ تن تھا
بالوں میں بھی پھول سجے تھے
اس کے ملکوتی چہرے پر نرمی تھی اور شکر گذاری
کار کی سیٹ پہ بیٹھ گئی تو ہنس کربولی
میں نے اپنی سب سکھیوں کو میری اور تمہاری ڈیٹ کے بارے میں بتلایا ہے
وہ بے حد حیران ہوئیں اور ان پر کافی رعب پڑا تھا
وہ کل مجھ سے فون پہ اک اک لمحے کی تفصیل سنیں گی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریستوران میں جب ہم پہنچے
میری ماں میرے بازو کو یوں تھامے تھی
گویا وہ خاتونِ اول کے منصب پر فائز ہے
میں نے مینیو پڑھتے پڑھتے رک کر اس کی جانب دیکھا
وہ مجھ کو گہری نظروں سے دیکھ رہی تھی
میرے ہاتھ کو چُھو کر بولی
یاد ہے تم کو مینیو پڑھنا کام تھا میرا جب تم چھوٹے سے لڑکے تھے
میں بولا ہاں یاد ہے مجھ کو ،وہ دن کتنے اچھے تھے
کھانا کھاتے کافی پیتے ہم نے ڈھیروں باتیں کی تھیں
میرے بچپن اور جوانی کا ہر لمحہ یاد تھا اس کو
اس کی آنکھوں میں وہ منظر نقش تھے سارے
اس کے دل میں میری یاد کا بیتا موسم ٹھہر گیا تھا
جب ہم واپس لوٹ رہے تھے تب ماں بولی
میں تمہارے ساتھ دوبارہ کھانا کھانے جاؤں گی
لیکن اگلی بار یہ دعوت میری جانب سے ہو گی
میں نے ہنس کر حامی بھر لی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماں کو اس کے گھر پر چھوڑ کے رات گئے جب میں گھر پہنچا
میری بیوی ہنس کر بولی ''کیسی تھی یہ ڈیٹ تمہاری''؟
تب میں اگلی'' ڈیٹ ''پہ جانے کے بارے میں سوچ رہا تھا
جس کی حامی بھر آیا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مگربہانہ گھڑنے کی نوبت نہ آئی
میری ماں تو اکیس دن بھی بعد اس ڈیٹ کے جی نہ پائی
اک ہفتے کے بعد ہی یکدم وہ یہ دنیا چھوڑ گئی
ماں کے مر جانے کے بعد
ایک لفافہ ڈاک سے میرے نام آیا
اس میں کیا تھا؟
ایک رسید کی کاپی تھی اس ریستوران کی
میں نے اس شب اپنی ماں کے ساتھ جہاں کھانا کھایا تھا
اک پرچہ بھی ساتھ تھا اس کے
جس پر ماں کے ہاتھوں سے یہ نوٹ لکھا تھا
میرے بیٹے میں نے جس کھانے کی تم کو دعوت دی تھی
اس کے بل کی پے منٹ میں نے کل ایڈوانس میں کر دی ہے
میرا جی کچھ ٹھیک نہیں ہے،اور رسید کی کاپی تم کو بھیج رہی ہوں
ساتھ تمہارے اب میں شائد اور اک شام بِتا نہ پاؤں
ریستوران میں جا کر کھانا کھا نہ پاؤں
پھر بھی کوئی بات نہیں ہے
میں نے دو افراد کے کھانے کی ہی ان کو پے منٹ کی ہے
تم اپنی بیوی کے ہمراہ اسی جگہ پر کھانا کھانا، لطف اٹھانا
میری جانب سے یہ دعوت ایک محبت کا ٹوکن ہے
شائد تم یہ جان نہ پاؤ،جس شب ہم نے کھانا کھایا باتیں کی تھیں
میرے ویراں جیون میں وہ سُندرشب آباد بہت ہے
باقی جیون خوش رہنے کو ،اس اک شب کی یاد بہت ہے!!!
Wednesday, August 13, 2014
Friday, August 8, 2014
Monday, July 28, 2014
Wednesday, July 9, 2014
گنجے پن کا بہترین علاج
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چند دیسی انڈے سخت اُبال لیں ان کی زردیاں نکال کر توے پر رکھیں ہلکی آنْچ پر جلنے دیں . اُلٹ پلٹ کرتے جائیں . پِھر تھوڑا تھوڑا ٹیڑھا کر دیں اِس طرح تھوڑی دیر بعد زردی میں سے قطرہ قطرہ تیل نکلنا شروع ہو جائیگا . سیدھے توۓ یا فرائی پین میں تیل نکالیں . جو تیل نکلے جمع کر لیں پِھر زردی کو چمچے سے دباتے رہیں اور تیل جمع کرتے رہیں اب اس تیل میں زیتون کا یا تلوں کا تیل برابر شامل کرکے رات کو سونے سے پہلے سر پر مالش کر لیا کریں . کچھ دن بعد ہی بال دوبارہ اگنے شروع ہو جائیں گے