زرا غور کیجئے کہ جب چپراسی کی ملازمت کے لئے بھی انٹر یا بی اے پاس بندہ مانگا جاتا ہے، گریڈ 17 کے لئے 16 سال کی متعلقہ تعلیمی قابلیت مانگی جاتی ہے ، بعض دفعہ تو 5 سال تک کا تجربہ بھی مانگا جاتا ہے،تجربے کی جانچ کی جاتی ہے، پھر جب ہم سی ایس ایس کی بات کرتے ہیں تو انتہائی سخت امتحان لیا جاتا ہے اور وہ بھی متعلقہ تعلیمی و تجربہ کی جانچ کے بعد۔ پھر یہی افراد کئی سال کام کرنے اور اپنے تجربے و تعلیم کو بڑھاتے ہوئے 21 یا 22 گریڈ میں پہنچتے ہیں۔
یہی احوال کم و بیش تمام محکموں میں کام کرنے والے افراد کا بھی ہے۔
مگر یہ لوگ جو اتنے سخت چنائو اور پھر بہترین محکمہ جاتی ماحول سے گزرے ہوتے ہیں ان کا سربراہ کون ہوتا ہے؟ یعنی ملک کا وزیراعظم اور دوسرے وزیر؟ کیا ان لوگوں کے پاس حکومت چلانے کے لئے متعلقہ تعلیمی قابلیت ہوتی ہے؟ یا تعلیم کے بعد کوئی تجربہ جسے ہم واقعی تجربہ کہیں نہ کہ عیاشی؟
اگر ملک کے بڑے بڑے ادارے سی ایس ایس کے تحت بھرتی کئے گئے افراد چلا سکتے ہیں تو اسی طرح سے چنے گئے لوگ حکومت کیوں نہیں چلاسکتے؟ جن کے پاس حکومت چلانے کے لئے متعلقہ تعلیم بھی ہو، اور بنیادی قابلیت بھی۔
یہ سیاستدان ، یہ ایم اے ، بی اے پاس نسلی کاروباری ، یہ وڈیرے ہماری قسمت نہیں بدل سکتے۔ یہ ِگدھوں کی اولادیں، یہ اپنے آقائوں کے اشاروں پر ناچنے والی اور عوام کو نچانے والی طوائفیں ہماری آنے والی نسلوں کی قسمت کا فیصلہ نہیں کرسکتیں۔ پاکستان کے مقتدر حلقوں کو اٹھنا ہوگا۔ آرمی ، انٹیلیجنس ادارے، سول سوسائٹی، اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ اور تعلیم سے جڑے افراد کو اب اٹھنا ہوگا، اب وقت ہے اٹھنے کا، فیصلہ کرنے کا کہ کیا یہ گند تا قیامت چلتا رہے گا یا پھر ہم میں تبدیلی لانے کا دم ہے اور ہماری رگوں میں بھی انہی افراد کا خون ہے جنہوں نے انگریز سے ملک چھینا تھا۔
No comments:
Post a Comment
Note: Only a member of this blog may post a comment.