"آج ہم اسلامیانِ پاکستان جہاں پہنچ گئے ہیں……اس میں ہم کسی کو دوش نہ دیں……صاف صاف اعتراف کریں کہ یہ ہمارے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے……اور اُن کو کسی لاگ لپٹ کے بغیر پہچانیں جنہوں نے ہمیں یہاں تک پہنچایا ہے……پہنچانے کا ہر ہر سامان کیا ہے……"
ذرا ان مذکورہ جملوں کو بغور پڑھیے کہ یہ کس کھلے طور پر ایک دوسرے کو جھٹلارہے اور پہلا دوسرے کی اور دوسرا پہلے کی گردن ماررہا اور گلا کاٹ رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ہم جس ذلت و پستی اور ابتلاء و بدحالی کے مقام پر پہنچے ہیں اُس پر اپنی بداعمالیوں اور کرتوتوں کی وجہ سے پہنچے ہیں اور اس کے لیے ہمیں کسی دوسرے کو دوشی اور مجرم قرار دینے کا کوئی حق نہیں ہے تو پھر یہ اگلا فقرہ :
……اور اُن کو کسی لاگ لپٹ کے بغیر پہچانیں جنہوں نے ہمیں یہاں تک پہنچایا ہے……پہنچانے کا ہر ہر سامان کیا ہے……
کیا بلا ہے۔ بھئی یا تو پوری قوم اور اس کا فرد فرد اپنی موجودہ بدحالی و ابتری کا ذمے دار ہے یا پھر آپ کے بقول صرف اور صرف وہ بکاؤ جرنیلز، سیاسی کمانڈرز اور میڈیائی مجاہدین اس صورتحال کی رونمائی کے ذمے دار و تخلیق کار ہیں، جنہیں آپ اس طرح کی ای میلز میں جی بھر کر کوستے اور ہر طرح کے برے، بدترین اور زہریلے فقروں، طنزوں اور نشتروں سے اپنے غیض و غضب کا نشانہ بناتے رہتے ہیں۔
آخر بتائیے تو سہی کہ ان دونوں باتوں میں سے کون سی بات ٹھیک اور حقیقت کی عکاس و غماز ہے؟؟؟
بات اصل میں یہ ہے کہ ہماری قوم کا معاملہ یہ ہے کہ اس کا ہر ہر فرد اپنے حدود اور اختیارات کے دائرے میں کرپٹ اور گھٹیا ترین اخلاق و کردار والا ہے۔ عام آدمی اپنے چھوٹے گول دائرے میں اسی سوچ، خود غرضی، مفاد پرستی، بے ضمیری، اجتماعی مفاد سے بے پروائی اور لوٹ کھسوٹ اور اوپری کمائی کی گندگیوں میں لتھڑا ملتا ہے جس میں بظاہر حکمران و صاحبانِ حیثیت و ثروت و اختیار طبقات زیادہ بڑے پیمانے پر ملوث و آلودہ نظر آتے ہیں۔ صورتحال حقیقت میں وہی ہے جسے ہمارے ایک محترم نے "ہر کرسی پر فرعون بیٹھا ہے" نامی اپنے ایک خوبصورت مضمون میں بیان فرمایا تھا کہ اس قوم کی بدقسمتی اس کے حکمران اور با اثر و اختیار لوگ اور ان کا کرپشن نہیں بلکہ یہ ہے کہ اس کا ہر ہر فرد فرعون و شیطان بنا ہوا ہے۔ ہر کوئی بے ایمان، خائن، لٹیرا، بے حس، مفاد پرست اور بکاؤہے۔ ہر کسی کی کوئی نہ کوئی قیمت ہے جس کے ملنے پر وہ ہر طرح کی بدی، خیانت، ظلم، کرپشن اور قوم فروشی و اجتماعی مفاد کی ملیا میٹی پر بخوشی راضی ہوجاتا ہے۔
دنیا میں قوموں نے ہم سے بہت زیادہ بدترین حالات سے ابھر کر اور ترقی و خوشحالی کی معراجوں پر پہنچ کر دکھایا ہے۔ کیوں کہ ان قوموں کے افراد جاگ گئے تھے اور انہوں نے ٹھان لی تھی کہ ہم اپنی قومی ترقی اور اجتماعی بہبود کے لیے جو کچھ کرسکتے ہیں، اس سے دریغ نہ کریں گے اور اپنے لوگوں کی فلاح و تعمیر کے لیے ہر طرح کی قربانی دیں گے۔ ہمارا مسئلے کا حل اور ہماری ضرورت بھی یہی ہے کہ افرادِ قوم جاگیں۔ اپنی بدعملیوں سے توبہ کریں۔ اپنے جرائم سے باز آئیں۔ اپنی چھوٹی چھوٹی حرام خوریاں بند کریں۔ اپنی معمولی معمولی دھوکے بازیاں، خیانتیں، رشوت خوریاں، بے حسیاں اور مفاد پرستیاں وغیرہ ختم کریں۔
اسی سے مسئلہ حل ہوگا اور ہم ترقی کی شاہراہ پر آگے بڑھیں گے۔ ہم اگر خالی کرپٹ حکمرانوں، غدار جرنیلوں اور میڈیائی جوکروں کے داغوں اور روگوں پر انگلیاں اٹھاتے اور انہیں سدھرنے اور سنورنے کی مظلومانہ اپیلیں کرتے اور پھسپھسی دھمکیاں دیتے رہے تو اس سے نہ پہلے کچھ ہوا ہے اور نہ آگے کچھ ہونے والا ہے۔ جو کچھ ہوگا وہ عام آدمی کے جاگنے، اپنی خرابیوں کو دور کرنے اور قوم و اجتماعیت کی خاطر تن من دھن کی بازی لگانے سے ہوگا۔
جو حضرات و برادرانِ گرامی اپنے سینے کے جذبات اور دل کی ڈھرکنوں میں قوم کا درد محسوس کرتے اور اس کی فلاح و بہتری اور تعمیر و ترقی کے لیے کچھ کرنے کا عزم و ارادہ رکھتے ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ اپنی اپنی بساط بھر دائرے میں چھوٹے چھوٹے عملی و تعمیری کاموں کو تسلسل کے ساتھ جاری کریں، اپنی زندگیاں اپنے اپنے شعبوں کے حوالے سے قوم کے شعور و ڈھانچے کو اوپر اٹھانے کے جہاد میں جھونک ڈالیں اور جو لوگ فکر و خیال کے میدان میں قوم کو روشنی و رہ نمائی دینے کی تڑپ اپنے اندر رکھتے ہیں، انہیں چاہیے کہ قوم کو مشکلات و مصائب کے پہاڑوں کے نقشے دکھادکھا کر اور اپنے بدخواہ اور بے غیرت و حمیت حکمرانوں کے مظالم و مفاسد کی داستانیں سنا سناکر مایوس و دل شکستہ کرنے کے بجائے اس کے عزم و حوصلے کو ابھاریں، اس کے اندر اعتماد و خود داری پیدا کریں، اپنے بل پر اٹھنے اور اپنی تعمیر آپ کرنے کی امنگیں جگائیں، نوجوانانِ قوم کے ذہانت و صلاحیت کو صحیح رخوں اور مثبت میدانوں میں موڑنے کی کوشش کریں، مادیات کی اندھی بہری دوڑ میں شامل ہوکر خود غرضی و مفاد پرستی و بے حسی کے مردہ پیکروں میں ڈھلنے کے بجائے سادگی اپناکر اور اپنی قابلیتیں اور لیاقتیں کام میں لاکر اپنے اور قوم کے لیے بہترین و شاندار مستقبل کا سویرا طلوع کرنے کے لیے تن من دھن سے محنت کرنے کے ولولے پھیلائیں۔ شکوے، شکایتیں، مظالم کی قصہ خوانیاں، حکمرانوں کے بگاڑ کی دہائیاں اور مایوسی و دل شکستگی کی باتیں قوم کی نیا کو پار تو کیا لگائیں گی، بحرِ پستی و بربادی میں کچھ اور گہرائی کے ساتھ غرقاب ضرور کردیں گی۔
جس قوم کی آبادی کا زیادہ بڑا حصہ تازہ دم توانائیوں سے بھرپور نوجوانوں پر مشتمل ہو، اسے ایسے کسی منجدھار سے گھبرانے اور دل چھوڑ بیٹھنے کی ہرگز ہرگز کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ضرورت ہے تو اس امر کی ہے کہ وہ اپنے اس انتہائی عزیز و قیمتی اثاثے کی صحیح قدردارنی کرے، اس کے علم و شعور کو بڑھائے اور اس کی بہترین تربیت و تعمیر کا اہتمام کرے اور اس میں یہ لگن بھر دے کہ اسے اپنی قوم و ملت کے لیے جینا اور مرنا ہے۔ پھر دیکھیے گا کہ کس طرح ہماری قوم و ملت کا ستارہ بھی عروج پر جاتا اور ترقی و بلندی و خوشحالی کی انتہائی چوٹیوں تک کو سر کرجاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment
Note: Only a member of this blog may post a comment.