Bismillah

Bismillah

Ayyat

Ayyat

Pakistani Human Resource available

This is to clarify to our all visitor and members that, we obey all Pakistani Rules and Regulations which is implemented in Pakistan by Pakistani Government. Our main purpose of posting and circulating data on our site is only for Pakistani nation knowledge and information. So using this data for any other purpose or misuse of data, we will not take any responsibilities of this type of activities, kindly do not use this data for any illegal activities which is prohibited by Pakistani Government, and follow the all rules of Pakistani Government about Cyber Crimes.

We can provide you all type of Pakistani best Human Resource Skilled and Unskilled for all over the world and specially for Arab countries. If you required any type of Human Resource you can send us email at : joinpakistan@gmail.com We will do our best to satisfy your needs according to your requirement.

If you required a job or if you are searching for a good employee please contact us at : joinpakistan@gmail.com

Charagh

Charagh

Tuesday, August 30, 2011

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

السلامُ علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ


 

نکل جاؤ کام سے

والاس جونسن نامی ایک امریکی  نوجوان نے اپنی زندگی کے حسین ترین ایام ایک ورکشاپ میں لکڑیاں چیرنے میں گزار دیئے۔ اسکی جوانی کی بے محار طاقت پر مشقت اور سخت ترین کام کر کے کچھ زیادہ ہی تسکین پاتی تھی۔   اور آرے پر لکڑیاں چیرتے چیرتے اسکی زندگی کے چالیس سال گزر گئے ۔

یہ مشقت والا کام کرتے ہوئے والاس جونسن ہمیشہ اپنے آپ کو اس آرے کی مشین پر بہت اہم فرد محسوس کرتا تھا کہ ایک دن آرے کے مالک نے اسے بلا کر ایک تشویشناک خبر دیتے ہوئے کہا کہ میں تمہیں ابھی اور اسی وقت   کام سے نکال رہا ہوں اور کل سے ادھر مت آنا۔

والاس  کیلئے یہ خبر کسی مصیبت سے کم نہ تھی۔ وہ وہاں سے نکل کر خالی الذہن اور پریشان حال سڑکوں پر نکل پڑا۔ دماغ کسی منصوبہ بندی سے خالی اور دل بار بار کچوکے لگاتا ہوا کہ زندگی کے اتنے  حسین سال ایسے  ضائع  ہوگئے؟ پریشانی سے رونا بھی نہیں آ رہا تھا اور دل تھا  کہ اس نوکری سے چلنے والی گھر کی روزی روٹی کا سوچ سوچ کر  ڈوبا جا رہا تھا۔  اور ایسا ہوتا بھی کیوں ناں؟ اسکی روزی کا اکلوتا دروازہ اس پر بند ہو گیا تھا، زمین اس پر تنگ ہو  کر رہ گئی تھی اور آسمان منہ موڑ گیا تھا۔ اُسے ہر سو اندھیرا ہی اندھیرا دکھائی دے رہا تھا۔

جو چیز اُسے سب سے زیادہ پریشان کر رہی تھی کہ وہ کس منہ سے جا کر اپنی بیوی کو بتائے کہ اس کے پاس گھر کے  گزارے کیلئے جو نوکری تھی وہ جاتی رہی تھی۔ مگر ناچار شام کو لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ اُسے گھر لوٹناہی پڑا۔

والاس کی بیوی نےوالاس سے بر عکس نوکری چھوٹنے کا صدمہ نہایت تحمل سے سُنا اور والاس جونسن  کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا: کیوں ناں ہم اپنے   گھر کو رہن کر قرضہ اُٹھائیں  اور کوئی تعمیرات کا کام شروع کریں؟

اور اُس نے واقعی ایسا ہی کیا، اپنے گھر کو رہن رکھ کر کچھ قرضہ اُٹھایا اور اُس پیسے سے دو چھوٹے گھر بنائے۔ اس  پہلے تعمیراتی کام میں اُسکی اپنی محنت اور  مشقت زیادہ شامل تھی۔ یہ دو گھر اچھے پیسوں سے بکے تو اُسکا حوصلہ اور بڑھ گیا۔ اور پھر تو چھوٹے گھروں کے پروجیکٹ اُسکی پہچان بن گئے۔  اور اپنی محنت اور قسمت کے بل بوتے پر صرف پانچ سال کے مختصر عرصے  میں ہی والاس ایک ایسا مشہور   ملیونیر والاس جونسن  بن چکا تھا جس نے دنیا کے مشہور ترین ہوٹلوں کے سلسلے ہولیڈے اِن  کی بنیاد رکھی۔ اس اسکے بعد تو یہ سلسلہ بڑھتا ہی گیا اور ہولیڈے اِن ہوٹل دُنیا کے کونے کونے میں چھا گئے۔

یہ شخص اپنی ڈائری میں ماضی کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے لکھتا تھا کہ : اگر آج مجھے یہ معلوم ہو جائے کہ اُس آرا ورکشاپ کا مالک، جس نے نے مجھے کام سے نکالا تھا، کہاں رہتا ہے تو میں جا کر اُسکا اپنے دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کروں۔ کیونکہ اُس نے میرے لیئے ایسی صورتحال پیدا کر کے بظاہر تو ایسی  دردناک کیفیت  پیدا کر دی تھی جس نے میرے ہوش و حواس  ہی چھین لیئے تھے، مگر آج میں نے یہ جانا ہے کہ اگر اللہ  نے مجھ پر ایک دروازہ بند کیا تھا تو  اُسکے بدلے ایک نیا راستہ بھی تو کھول دیا تھا جو کہ میرے اور میرے خاندان کیلئے زیادہ بہتر ثابت ہوا۔

پیارے دوست؛ جب کبھی بھی کسی ناکامی کا سامنا ہو جائے تو اُسے اپنا اختتام نا سمجھ لو۔ بس ذرا ہمت اور حوصلے کے ساتھ  زندگی کی عطا کردہ دوسری خوبیوں کے ساتھ سوچو اور ایک نئی ابتدا کرلو۔

جب ہمارے اختیار میں ہو کہ ہم اس سے بہتر کچھ کر سکتے ہوں تو پھرزندگی کا اختتام  اس طرح روتے اور منہ بسورتے تو ہرگز نہیں ہونا چاہیئے۔

 اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے:

 مگر عجب نہیں کہ ایک چیز تم کو بری لگے اور وہ تمہارے حق میں بھلی ہو اور عجب نہیں کہ ایک چیز تم کو بھلی لگے اور وہ تمہارے لئے مضر ہو۔ اور ان باتوں کو خدا ہی بہتر جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ (سورۃ البقرہ –آیۃ 216)

Saturday, August 27, 2011

Altaf Hussain caught escaping to South Africa?

Altaf Hussain caught escaping to South Africa? 

source http://www.thelondonpost.net/Aug262011000117.html

By Special Correspondent 
Friday 26 August 2011
 
London: Altaf Hussain self exiled leader of MQM-A caught escaping to South Africa by the authorities. According to sources, 'Altaf Hussain was hiding in the Wrexham area close to Slough in Berkshire for the past few days. He was stopped when was going to Heathrow Airport in a private taxi. Interestingly the taxi driver was a Pakistani whom Mr Hussain thought as an English man due to his appearance.   

According to sources Altaf Hussain told the authorities that, 'he is leaving UK and going to South Africa for security reasons and personal protection'. According to sources he was told that, 'security can be provided to him in the UK'. It is not yet clear if Mr Hussain detained or taken in protective custody. Mr Altaf Hussain is a British Citizen and living in self imposed exile since 1992.  He is never been to Pakistan since 1992, not a registered voter now and never voted in any elections ever since.  

Earlier yesterday it was reported that British police raided two addresses including an office of  MQM-A in London in connection with the on going murder investigation of Dr Imran Farooq. It is reported that police took the crucial evidence in custody including the carpets for forensic investigation.   According to reports 35 well trained officers of the Scotland Yard took part in the operation on Thursday 24th August 2011". 

It is reported that those MQM-A terrorists arrested in Karachi were actually coming from Colombo Sri Lanka and had connections with the murder of Dr Imran Farooq. The arrests took place as result of tip off from British authorities. 

According to reports both Khalid Shamim and another MQM-A terrorists who were arrested in Karachi while arriving from Colombo actually called in to be eliminated in Karachi by their own party MQM-A.   They had crucial information related to Dr Imran Farooq's murder as well as target killing cells in various countries including South Africa. They knew too much about the MQM-A illegal and terrorist activities and needed to be eliminated that is why they were called in Karachi. They are lucky to be alive in the custody of Pakistani authorities than killed by their own death squad.   

Tuesday, August 16, 2011

Thanks to Allah....

بسم اللہ الرحمن الرحیم

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

پھولوں کے نیچے کانٹے یا کانٹوں کے اوپر پھول؟

ہو سکتا ہے مندرجہ ذیل قصے کا حقیقت سے کوئی تعلق نا ہو، مگر اس سے حاصل ہونے والے فائدے کیلئے اسے آخر تک پڑھ لیجیئے۔

ایک شخص نے بہتر گھر خریدنے کیلئے اپنا  پہلے والا گھر بیچنا چاہا۔

اس مقصد کیلئے وہ اپنے ایک ایسے دوست کے پاس گیا جو جائیداد کی خرید و فروخت میں اچھی شہرت رکھتا  تھا۔

اس شخص نے اپنے دوست کو مُدعا سنانے کے بعد کہا کہ وہ اس کے لئے  گھر برائے فروخت کا ایک اشتہار لکھ  دے۔

اس کا دوست اِس گھر کو بہت ہی اچھی طرح  سے جانتا تھا۔ اشتہار کی تحریر  میں اُس نے گھر کے محل وقوع، رقبے، ڈیزائن، تعمیراتی مواد، باغیچے، سوئمنگ پول سمیت ہر خوبی کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا۔

اتحریر مکمل ہونے پر اُس نے اپنے دوست کو  یہ اشتہار  پڑھ کر سُنایا تاکہ  اُسکی رائے لے سکے۔

اشتہار  کی تحریر سُن کر اُس شخص نے کہا، برائے مہربانی اس اعلان کو ذرا   دوبارہ پڑھنا۔ اور اُس کے دوست نے  اشتہار دوبارہ پڑھ کر سُنا دیا۔

اشتہار کی تحریر کو دوبارہ سُن کو یہ شخص تقریباً چیخ ہی پڑا کہ کیا میں ایسے شاندار گھر میں رہتا ہوں؟

اور میں ساری زندگی ایک ایسے گھر کے خواب دیکھتا رہا جس میں کچھ ایسی ہی خوبیاں ہوں۔ مگر یہ کبھی خیال ہی نہیں آیا کہ میں تو رہ ہی ایسے گھر میں رہا ہوں جس  کی ایسی خوبیاں تم بیان کر رہے ہو۔  مہربانی کر کے اس اشتہار کو ضائع کر دو، میرا گھر بکاؤ ہی نہیں ہے۔

*****

ایک منٹ ٹھہریئے، میرا مضمون ابھی پورا نہیں ہوا۔

ایک بہت پرانی کہاوت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ نعمتیں تمہیں دی ہیں ان کو ایک کاغذ پر لکھنا شروع کر دو،  یقیناً اس لکھائی کے بعد تمہاری زندگی اور زیادہ خوش و خرم ہو جائے گی۔

اصل میں ہم اللہ تعالیٰ کا شکر کرنا ہی بھلائے بیٹھے ہیں کیوں کہ جو کچھ برکتیں اور نعمتیں ہم پر برس رہی ہیں ہم اُن کو گننا ہی نہیں چاہتے۔

ہم تو صرف اپنی گنی چنی چند پریشانیاں یا کمی اور کوتاہیاں دیکھتے ہیں اور برکتوں اور نعمتوں کو بھول جاتے ہیں۔

کسی نے کہا:  ہم شکوہ کرتے ہیں کہ اللہ نے  پھولوں کے نیچے کانٹے لگا دیئے ہیں۔ ہونا یوں چاہیئے تھا کہ  ہم اللہ کا شکر ادا کرتے کہ اُس نے کانٹوں کے اوپر بھی پھول اُگا دیئے ہیں۔

ایک اور نے کہا: میں اپنے ننگے پیروں کو دیکھ کر کُڑھتا  رہا، پھر ایک ایسے شخص کو دیکھا جس کے پاؤں ہی نہیں تھے تو  شکر کے ساتھ اللہ کے سامنے سجدے میں گر گیا۔

اب آپ سے سوال: کتنے ایسے لوگ ہیں جو آپ جیسا گھر، گاڑی، ٹیلیفون، تعلیمی سند،  نوکری  وغیرہ،  وغیرہ،  وغیرہ کی خواہش کرتے ہیں؟

کتنے ایسے لوگ ہیں جب  آپ  اپنی گاڑی پر سوار جا رہے ہوتے ہو تو وہ سڑک پر ننگے پاؤں یا پیدل جا رہے ہوتے ہیں؟

کتنے ایسے لوگ ہیں جن کے سر پر چھت نہیں ہوتی جب آپ اپنے گھر میں محفوظ آرام سے سو رہے ہوتے ہیں؟

کتنے ایسے لوگ ہیں جو علم حاصل کرنا چاہتے تھے اور نا کر سکے اور تمہارے پاس تعلیم کی سند موجود ہے؟

کتنے  بے روزگار شخص ہیں جو فاقہ کشی کرتے ہیں اور آپ کے پاس ملازمت اور   منصب موجود ہے؟

اور وغیرہ وغیرہ وغیرہ ہزاروں باتیں لکھی اور کہی جا سکتی ہیں۔۔۔۔۔

کیا خیال ہے ابھی بھی اللہ کی نعمتوں کے  اعتراف  اور اُنکا شکر ادا کرنے کا وقت نہیں آیا کہ ہم کہہ دیں:

يا رب لك الحمد كما ينبغي لجلال وجہك وعظيم سلطانك

اللہم لك الحمد حتی ترضی و لك الحمد إذا رضيت ولك الحمد بعد الرضا

--------

Ref to jang news paper, a appeal request is generated, pls contribute...

 

Car Gangster is waiting Chief Justice of Pakistan Somoto Action

 

Thursday, August 11, 2011

????? ??? ??? ?? ????

Please read the whole poem, you will find yourself   somewhere in every line.                    
 
بوڑھے ماں باپ کے حقوق کوئی قسمت والا ہی ادا کر سکتا ہے۔اکثر اوقات اولاد اپنی غفلت اور نادانی سے اس سعادت سے محروم رہ جاتی ہے
 
.
اسی غفلت سے بچنے کی طرف توجہ دلانے کے لئے یہ نظم  لکھی گئی ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو والدین کے حقوق اور اپنے فرائض سمجھنے کی
توفیق دے آمین۔
 

-------------------------------------------------------------------------

میرے بچو،گر تم مجھ کو بڑھاپے کے حال میں دیکھو
اُکھڑی اُکھڑی چال میں دیکھو
مشکل ماہ و سال میں دیکھو
صبر کا دامن تھامے رکھنا
کڑوا ہے یہ گھونٹ پہ چکھنا
''اُف '' نہ کہنا،غصے کا اظہار نہ کرنا
میرے دل پر وار نہ کرنا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاتھ مرے گر کمزوری سے کا نپ اٹھیں
اور کھانا،مجھ پر گر جائے تو
مجھ کو نفرت سے مت تکنا،لہجے کو بیزار نہ کرنا

بھول نہ جانا ان ہاتھوں سے تم نے کھانا کھانا سیکھا
جب تم کھانا میرے کپڑوں اور ہاتھوں پر مل دیتے تھے
میں تمہارا بوسہ لے کر ہنس دیتی تھی
کپڑوں کی تبدیلی میں گر دیر لگا دوں یا تھک جاؤں
مجھ کو سُست اور کاہل کہہ کر ، اور مجھے بیمار نہ کرنا
بھول نہ جانا کتنے شوق سے تم کو رنگ برنگے کپڑے پہناتی تھی
اک اک دن میں دس دس بار بدلواتی تھی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے یہ کمزور قدم گر جلدی جلدی اُٹھ نہ پائیں
میرا ہاتھ پکڑ لینا تم ،تیز اپنی رفتار نہ کرنا
بھول نہ جانا،میری انگلی تھام کے تم نے پاؤں پاؤں چلنا سیکھا
میری باہوں کے حلقے میں گرنا اور سنبھلنا سیکھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب میں باتیں کرتے کرتے،رُک جاؤں ،خود کو دھراوں
ٹوٹا ربط پکڑ نہ پاؤں،یادِ ماضی میں کھو جاؤں
آسانی سے سمجھ نہ پاؤں،مجھ کو نرمی سے سمجھانا
مجھ سے مت بے کار اُلجھنا،مجھے سمجھنا
اکتاکر، گھبراکر مجھ کو ڈانٹ نہ دینا
دل کے کانچ کو پتھر مار کے کرچی کرچی بانٹ نہ دینا
بھول نہ جانا جب تم ننھے منے سے تھے
ایک کہانی سو سو بار سنا کرتے تھے
اور میں کتنی چاہت سے ہر بار سنا یاکرتی تھی
جو کچھ دھرانے کو کہتے،میں دھرایا کرتی تھی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


اگر نہانے میں مجھ سے سُستی ہو جائے
مجھ کو شرمندہ مت کرنا،یہ نہ کہنا آپ سے کتنی بُو آتی ہے
بھول نہ جانا جب تم ننھے منے سے تھے اور نہانے سے چڑتے تھے
تم کو نہلانے کی خاطر
چڑیا گھر لے جانے میں تم سے وعدہ کرتی تھی
کیسے کیسے حیلوں سے تم کو آمادہ کرتی تھی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گر میں جلدی سمجھ نہ پاؤں،وقت سے کچھ پیچھے رہ جاؤں
مجھ پر حیرت سے مت ہنسنا،اور کوئی فقرہ نہ کسنا
مجھ کو کچھ مہلت دے دینا شائد میں کچھ سیکھ سکوں
بھول نہ جانا
میں نے برسوں محنت کر کے تم کو کیا کیا سکھلایا تھا
کھانا پینا،چلنا پھرنا،ملنا جلنا،لکھنا پڑھنا
اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے اس دنیا کی ،آگے بڑھنا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری کھانسی سُن کر گر تم سوتے سوتے جاگ اٹھوتو
مجھ کو تم جھڑکی نہ دینا
یہ نہ کہنا،جانے دن بھر کیا کیا کھاتی رہتی ہیں
اور راتوں کو کُھوں کھوں کر کے شور مچاتی رہتی ہیں
بھول نہ جانامیں نے کتنی لمبی راتیں
تم کو اپنی گود میں لے کر ٹہل ٹہل کر کاٹی ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گر میں کھانا نہ کھاؤں تو تم مجھ کو مجبور نہ کرنا

جس شے کو جی چاہے میرا اس کو مجھ سے دور نہ کرنا
پرہیزوں کی آڑ میں ہر پل میرا دل رنجور نہ کرنا
کس کا فرض ہے مجھ کو رکھنا
اس بارے میں اک دوجے سے بحث نہ کرنا
آپس میں بے کار نہ لڑنا
جس کو کچھ مجبوری ہو اس بھائی پر الزام نہ دھرنا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گر میں اک دن کہہ دوں عرشی
ؔ ، اب جینے کی چاہ نہیں ہے
یونہی بوجھ بنی بیٹھی ہوں ،کوئی بھی ہمراہ نہیں ہے
تم مجھ پر ناراض نہ ہونا
جیون کا یہ راز سمجھنا
برسوں جیتے جیتے آخر ایسے دن بھی آ جاتے ہیں
جب جیون کی روح تو رخصت ہو جاتی ہے
سانس کی ڈوری رہ جاتی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شائد کل تم جان سکو گے ،اس ماں کو پہچان سکو گے
گر چہ جیون کی اس دوڑ میں ،میں نے سب کچھ ہار دیا ہے
لیکن ،میرے دامن میں جو کچھ تھا تم پر وار دیا ہے
تم کو سچا پیار دیا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب میں مر جاؤں تو مجھ کو
میرے پیارے رب کی جانب چپکے سے سرکا دینا
ا ور ،دعا کی خاطر ہاتھ اُٹھا دینا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرے پیارے رب سے کہنا،رحم ہماری ماں پر کر دے
جیسے اس نے بچپن میں ہم کمزوروں پر رحم کیا تھا
بھول نہ جانا،میرے بچو

جب تک مجھ میں جان تھی باقی

خون رگوں میں دوڑ رہا تھ
ا
دل سینے میں دھڑک رہا تھ
ا
خیر تمہاری مانگی میں نے

میرا ہر اک سانس دعا تھا
 
 
 

Report on Drone Attack in Pakistan

 

Wednesday, August 10, 2011

New Cancer Caused By Silver Nitro Oxide

AS RECEIVED

Very important safety massage.

Safety

ATTENTION!

Medical research authority of the US have found new cancer in human being caused by silver nitro oxide..

Whenever you buy recharge cards don't scratch with nails as it contains silver nitro oxide coating and can cause skin cancer...

Share this msg with your loved ones ...

الأبحاث الطبيه في الولايات المتحده الامريكيه اكتشفت سبب جديد لسرطان الجلد عن طريق اكسيد الفضه ,

عندما تقوم بشراء بطاقات مسبقة الدفع لا تقوم بإزالة المادة الفضيه بإظفرك لانها مكونه من طبقه من اك

سيد الفضه وقد تسبب سرطان الجلد

قم بإرسال هذه الرساله لإحبائك ,,

Life Examination

بسم اللہ الرحمن الرحیم

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

زندگی کے امتحان بھی تو ایسے ہی ہوتے ہیں

کسی سکول میں  ایک استاد ہوتا تھا۔ بہت ہی لائق اور محنتی، پڑھانے کو فرض سمجھنے اور پڑھائی کے پیشے کا حق ادا کرنے والا۔

 

ایک بار  سہ ماہی امتحانات کے دن قریب آنے پر اُسے امتحان لینے کا ایک نیا طریقہ سوجھا۔

روایتی  تحریری یا زبانی امتحانات جیسے طریقوں سے سےہٹ  کر ایک مختلف اور اچھوتا طریقہ۔

امتحان والے دن اُس نے طلباء سے کہا وہ اپنے ساتھ تین مختلف قسم کے پرچے بنا کر لایا ہے۔

جو ہر قسم کی ذہنی صلاحیتوں والے طلباء کے لئے مناسب اور موزوں ہیں۔

پہلی قسم کے پرچے اُن طلباء کیلئے ہیں جنہیں اپنی  ذہانت، اپنی محنت اور اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ ہے۔  ان پرچوں میں مشکل سوالات دیئے گئے ہیں۔

دوسرے قسم کے پرچوں میں درمیانہ قسم کے طلباء کیلئے  عام قسم کے سوالات ہیں۔ درمیانہ ذہانت  کے طلباء سے مراد ایسے طالبعلم جو پڑھتے تو ہیں مگر پڑھائی پر  اضافی  توجہ دینے اور سخت محنت سے کتراتے ہوئے۔ صرف پاس ہوجانا ہی اُن کا مطمع نظر ہوتا ہے۔

  اور  تیسری قسم کے پرچے ایسے طلباء کیلئے ہیں جو پڑھائی کے معاملے میں انتہائی کمزور ہیں۔ اپنی لا پروائی یا  دیگر غیر نصابی سرگرمیوں میں زیادہ مصروفیت کی وجہ سے وہ تعلیم کو وقت ہی نہیں دے پاتے اور نا ہی وہ کسی قسم کے سخت امتحانات یا  مشکل قسم کے سوالات کیلئے ذہنی طور تیار ہیں۔

طالبعلموں نے اپنے اُستاد کی بات کو بہت ہی تعجب سے سنا۔ امتحان کیلئے اس قسم کے پرچے بنائے جانا اُن کیلئے ایک  ایسا انوکھا تجربہ تھا جس سے انہیں اپنی ساری تعلیمی زندگی میں کبھی بھی واسطہ نہیں پڑا تھا۔  پرچہ شروع ہونے کی گھنٹی بجتے ہی سب طلباء اپنی اپنی پسند کے پرچے اُٹھانے کیلئے لپکے تو صورتحال کچھ اس طرح کی سامنے آئی کہ:

چند ایک طالبعلم ہی ایسے تھے جنہوں نے مشکل سوالات والے پرچے اُٹھانا پسند کیئے تھے۔ اور جتنے ایک طلباء نے مشکل پرچے اُٹھائے تھے اُن سے تھوڑے زیادہ طلباء نے درمیانی قسم کے پرچے لیئے تھے۔  جبکہ  طلباء کی اکثریت نے آسان سوالات والے پرچے لینا ہی پسند کیئے تھے۔

میں اپنی یہ کہانی پوری سنانے سے پہلے آپ سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ بھی ان طلباء میں شامل ہوتے تو  آپ کس قسم کا پرچہ اُٹھانا پسند کرتے؟

امتحان شروع ہوا تو کئی ایک حیرت انگیز باتیں طلباء کے انتظار میں تھیں۔ جن طلباء نے مشکل سوالات والے پرچے اُٹھائے تھے وہ یہ دیکھ کر حیران ہو رہے تھے سوالات تو اتنے مشکل ہرگز نہیں تھے جتنے مشکل کے وہ توقع کر رہے تھے۔

جن طلباء نے درمیانی قسم کے پرچے اُٹھائے تھے انہوں نے محسوس کیا کہ وہ اکثر سوالوں کے جوابات حل کر سکتے ہیں۔ دل میں تو یہ سوچ رہے تھے کہ کاش اُنہوں نے مشکل سوالوں والے اُٹھائے ہوتے تو بھی وہ  کئی سوالات حل کر ہی ڈالتے۔

حقیقی معنوں میں صدمہ  اُن طلباء کو پہنچا تھا جو آسان سوالوں والے  پرچے  اُٹھا لائے تھے مگر حقیقت میں وہ سوالات اتنے آسان بھی نہیں جتنے آسان کی وہ توقع کر رہے تھے۔

استاد  خاموشی سے سب طلباء کو پرچے اُٹھا کر  جاتے اور حل کرتے وقت اُن کے چہروں پر آئے ہوئے تأثرات کو دیکھتا رہا۔ امتحان کا مقرر ہ وقت ختم ہونے پر اُس نے سب  سے  پرچے اور جوابی کاپیاں  جمع کر کے اپنے سامنے رکھیں  اور طلباء سے کہا کہ وہ ان پرچوں کے نمبر لگا کر ابھی سب کو نتیجہ سنا دے گا۔

طالبعلموں کو یہ بات تو کچھ زیادہ ہی عجیب لگی۔  چھٹی ہونے میں تھوڑی سی دیر رہتے وقت میں اُستاد  زیادہ سے سے زیادہ دو یا چار پرچے  چیک کر سکتا تھا ،  ساری جماعت کے پرچے چیک کرنا تو ناممکن ہی تھا۔

مزید حیرت اُس وقت دیکھنے میں آئی جب اُستاد ہر طالبعلم کا  حل کیا ہوا پرچہ  اُٹھاتا اور اُسے بغیر دیکھے اور پڑھے  ،    اُس طالبعلم کے اختیار کردہ  پہلی  ، دوسری   یا تیسری   قسم کے سوالات والے  پرچے کے مطابق مخصوص نمبر  لگا کر واپس رکھ دیتا۔ طالبعلم اِس ساری صورتحال کو  خاموشی  مگر  نہایت ہی حیرت سے دیکھ رہے تھے مگر اُن کی یہ حیرت زیادہ دیر تک قائم نہ  رہ سکی۔

استاد جیسے ہی نمبر لگانے  سے فارغ ہوا تو اُس نے  طلباء کو کئی ایک غیر متوقع باتیں بتائیں۔ استاد نے اس اچھوتی قسم کے امتحان سے راز اُٹھاتے ہوئےجو پہلی بات بتائی وہ یہ تھی کہ:

تینوں قسم کے پرچے حقیقت میں ایک جیسے ہی تھے، کسی میں بھی کوئی مختلف سوال نہیں تھا۔

دوسرا راز یہ تھا کہ  جن طلباء نے مشکل سوال سمجھ کر پرچے اُٹھائے تھے اُس نے اُن طلباء کو اعلیٰ نمبروں سے پاس کیا تھا۔

جن طلباء نے   دوسری قسم کے عام سوالات والے پرچے اُٹھائے تھے اُن کو درمیانہ قسم کے ہی نمبر دیئے گئے تھے۔

اور جن طلباء نے سوالوں کو آسان سمجھ کر اُٹھایا تھا ان کو سب سے کمتر اور کمزور درجہ سے پاس کیا گیا تھا۔

اُستاد کی یہ باتیں سُن کر طالبعلموں کے منہ بن کر رہ گئے، اُنکے زیر لب شکوے اب صرف بڑبڑاہٹ ہی نہیں بلکہ آواز بن کر اُستاد تک پہنچ رہے تھے۔ خاص طور پر وہ طلباء جنہوں نے درمیانی قسم یا آسان سوالات والے پرچے لیئے تھے اُن سے یہ بات ہضم نہیں ہو پا رہی تھی۔ انہوں نے تو باقاعدہ اُستاد سے اس بات کی وضاحت ہی مانگ لی۔

اُستاد نے اپنے مقصد کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ:

اُس نے کسی پر کوئی ظلم نہیں کیا۔

اُس نے سب کو نمبر اُن کی  اپنی اختیار کردہ حیثیت کے مطابق ہی تو دیئے ہیں۔

جو  طالبعلم  اپنی محنت پر بھروسہ اور  صلاحیتوں پریقین رکھتا  تھا اور  اُس نے مشکل سوالات والا پرچہ اُٹھایا تھا، اُس کا حق بنتا تھا کہ اُسے اُس کی محنت کا حق  اعلیٰ درجے سے دیا جائے۔

جسے اپنی قابلیت پر شک اور اپنی صلاحیت کا اندازہ  تھا کہ اُس نے نا تو دل لگا کر پڑھا  اور نا ہی سنجیدگی سے محنت کی ہوئی تھی، اُس نے درمیانہ قسم کے پرچے اُٹھائے  اور اُسے اُس کی قدرات کے مطابق ہی درمیانہ نمبر دے دیئے گئے تھے۔

اور وہ کمزور طلباء جنہیں بخوبی پتہ تھا کہ  وہ پڑھنے کے معاملے میں نکمے ہیں، اپنے اسباق یاد کرنا تو دور کی بات،  انہوں نے تو اپنا وقت پڑھائی سے دور بھاگنے، کام چوری ، سستی اور لا پروائی میں  گزارا  ہوا تھا۔ تو ایسے طلباء کو تو اُن کی صلاحیت کے مطابق ہی ضعیف ترین نمبروں سے پاس کیا گیا تھا۔

جی ہاں۔ ہماری زندگی  بھی تو بالکل اسی طرح ہی ہے!

جس طرح ان طلباء نے اپنے لئے اپنی اپنی صلاحیت کے مطابق راستوں کا اختیار کیا،  اُسی طرح

آپ کو بھی یہ جان لینا چاہیئے کہ یہ  زندگی ہر شخص کو اس کی اپنی تیاری اور اُسکی قدرت و استطاعت کے مطابق ہی  درجے، ترقیاں،  اور اجرت  و معاوضہ دیا کرتی ہے۔  

اسی طرح ہی دوسرے لوگ، خواہ وہ آپ کے اساتذہ ہوں یا آپکے  اداروں کے سربراہان و مالکان، حتیٰ کہ آپ کے دوست اور  آپکے  جاننے  والے عزیز بھی، ان میں سے کوئی بھی آپ کو آپ کے حق سے زیادہ نہیں دے گا۔

اگر آپ زندگی کی دوڑ میں اعلیٰ مراتب اور بلند درجوں کے خواہشمند ہیں،  تو پھر آپ  کو بلا  خوف اور  پورے اعتماد کے ساتھ  سخت امتحانات  کو اختیار کرنا پڑے گا۔

اب فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے  کہ آپکو سب سے کمتر اور ضعیف درجے کی کامیابی چاہیئے یا کہ اعلٰی درجوں والی؟