السلامُ علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
والاس جونسن نامی ایک امریکی نوجوان نے اپنی زندگی کے حسین ترین ایام ایک ورکشاپ میں لکڑیاں چیرنے میں گزار دیئے۔ اسکی جوانی کی بے محار طاقت پر مشقت اور سخت ترین کام کر کے کچھ زیادہ ہی تسکین پاتی تھی۔ اور آرے پر لکڑیاں چیرتے چیرتے اسکی زندگی کے چالیس سال گزر گئے ۔
یہ مشقت والا کام کرتے ہوئے والاس جونسن ہمیشہ اپنے آپ کو اس آرے کی مشین پر بہت اہم فرد محسوس کرتا تھا کہ ایک دن آرے کے مالک نے اسے بلا کر ایک تشویشناک خبر دیتے ہوئے کہا کہ میں تمہیں ابھی اور اسی وقت کام سے نکال رہا ہوں اور کل سے ادھر مت آنا۔
والاس کیلئے یہ خبر کسی مصیبت سے کم نہ تھی۔ وہ وہاں سے نکل کر خالی الذہن اور پریشان حال سڑکوں پر نکل پڑا۔ دماغ کسی منصوبہ بندی سے خالی اور دل بار بار کچوکے لگاتا ہوا کہ زندگی کے اتنے حسین سال ایسے ضائع ہوگئے؟ پریشانی سے رونا بھی نہیں آ رہا تھا اور دل تھا کہ اس نوکری سے چلنے والی گھر کی روزی روٹی کا سوچ سوچ کر ڈوبا جا رہا تھا۔ اور ایسا ہوتا بھی کیوں ناں؟ اسکی روزی کا اکلوتا دروازہ اس پر بند ہو گیا تھا، زمین اس پر تنگ ہو کر رہ گئی تھی اور آسمان منہ موڑ گیا تھا۔ اُسے ہر سو اندھیرا ہی اندھیرا دکھائی دے رہا تھا۔
جو چیز اُسے سب سے زیادہ پریشان کر رہی تھی کہ وہ کس منہ سے جا کر اپنی بیوی کو بتائے کہ اس کے پاس گھر کے گزارے کیلئے جو نوکری تھی وہ جاتی رہی تھی۔ مگر ناچار شام کو لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ اُسے گھر لوٹناہی پڑا۔
والاس کی بیوی نےوالاس سے بر عکس نوکری چھوٹنے کا صدمہ نہایت تحمل سے سُنا اور والاس جونسن کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا: کیوں ناں ہم اپنے گھر کو رہن کر قرضہ اُٹھائیں اور کوئی تعمیرات کا کام شروع کریں؟
اور اُس نے واقعی ایسا ہی کیا، اپنے گھر کو رہن رکھ کر کچھ قرضہ اُٹھایا اور اُس پیسے سے دو چھوٹے گھر بنائے۔ اس پہلے تعمیراتی کام میں اُسکی اپنی محنت اور مشقت زیادہ شامل تھی۔ یہ دو گھر اچھے پیسوں سے بکے تو اُسکا حوصلہ اور بڑھ گیا۔ اور پھر تو چھوٹے گھروں کے پروجیکٹ اُسکی پہچان بن گئے۔ اور اپنی محنت اور قسمت کے بل بوتے پر صرف پانچ سال کے مختصر عرصے میں ہی والاس ایک ایسا مشہور ملیونیر والاس جونسن بن چکا تھا جس نے دنیا کے مشہور ترین ہوٹلوں کے سلسلے ہولیڈے اِن کی بنیاد رکھی۔ اس اسکے بعد تو یہ سلسلہ بڑھتا ہی گیا اور ہولیڈے اِن ہوٹل دُنیا کے کونے کونے میں چھا گئے۔
یہ شخص اپنی ڈائری میں ماضی کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے لکھتا تھا کہ : اگر آج مجھے یہ معلوم ہو جائے کہ اُس آرا ورکشاپ کا مالک، جس نے نے مجھے کام سے نکالا تھا، کہاں رہتا ہے تو میں جا کر اُسکا اپنے دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کروں۔ کیونکہ اُس نے میرے لیئے ایسی صورتحال پیدا کر کے بظاہر تو ایسی دردناک کیفیت پیدا کر دی تھی جس نے میرے ہوش و حواس ہی چھین لیئے تھے، مگر آج میں نے یہ جانا ہے کہ اگر اللہ نے مجھ پر ایک دروازہ بند کیا تھا تو اُسکے بدلے ایک نیا راستہ بھی تو کھول دیا تھا جو کہ میرے اور میرے خاندان کیلئے زیادہ بہتر ثابت ہوا۔
پیارے دوست؛ جب کبھی بھی کسی ناکامی کا سامنا ہو جائے تو اُسے اپنا اختتام نا سمجھ لو۔ بس ذرا ہمت اور حوصلے کے ساتھ زندگی کی عطا کردہ دوسری خوبیوں کے ساتھ سوچو اور ایک نئی ابتدا کرلو۔
جب ہمارے اختیار میں ہو کہ ہم اس سے بہتر کچھ کر سکتے ہوں تو پھرزندگی کا اختتام اس طرح روتے اور منہ بسورتے تو ہرگز نہیں ہونا چاہیئے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے:
مگر عجب نہیں کہ ایک چیز تم کو بری لگے اور وہ تمہارے حق میں بھلی ہو اور عجب نہیں کہ ایک چیز تم کو بھلی لگے اور وہ تمہارے لئے مضر ہو۔ اور ان باتوں کو خدا ہی بہتر جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ (سورۃ البقرہ –آیۃ 216)
No comments:
Post a Comment
Note: Only a member of this blog may post a comment.