ایسے لوگ پھر لوٹ کر آ جائیں، کبھی نہیں
(خلافت عمر رضی اللہ عنہ سے چند معطر واقعات جو حکمرانوں اور ذمہ داروں کیلئے ایک آئینہ ہیں)
******
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ لوگوں کو خطبہ دینے کیلئے کھڑے ہوئے تو فرمایا: اے لوگو سنو اور غور کرو۔
سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے جواباً کہا: اللہ کی قسم، نا ہی تیری بات سُنیں گے اور نا ہی اُس پر غور کریں گے۔
حضرت عمررضی اللہ عنہ نے پوچھا: ایسا کیوں سلیمان ؟
انہوں نے جواب دیا: خود تو دو قمیصوں کے برابر کا کپڑا پہنتے ہو اور ہمیں ایک ایک قمیص دیتے ہو!
سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے عبداللہ سے کہا: اُٹھ عبداللہ اور سلیمان رضی اللہ عنہ کو جواب دو۔
عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ نے کہا: میرا والد طویل القامت شخص ہے، اس لئیے میرے حصے کا کپڑا لیکر اور دونوں کو ملا کر اپنے لیئے قمیص سلوا ئی ہے۔
سیدنا سلیمان رضی اللہ عنہ نے کہا: ٹھیک ہے امیر المؤمنین، اب کہیئے، ہم سُنیں گے، ہمیں حکم دو تو ہم اطاعت کریں گے۔
******
ایک بار منبر پر کھڑے ہو کر لوگوں سے فرمایا: تُم لوگ کیا کرو گے اگر راستہ اس طرح ٹیڑھا ہونا شروع ہو گیا تو؟ اور اپنے ہاتھ کو بھی تھوڑا سا ترچھا کر کے دکھایا۔
حاضرین کی آخری صفوں سے ایک شخص نے کھڑے ہو کر اپنی تلوار میان سے نکال کر لہراتے ہوئے کہا: اللہ کی قسم، اگر راستہ اس طرح ٹیڑھا ہوا تو ہم اپنی تلواروں سے ایسا کریں گے۔
سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے ایسی رعایا دی جو راستوں کو ٹیڑھا ہوتے دیکھے گی تو مجھے سیدھا کرنے کیلئے طاقت فراہم کرے گی۔
******
اے شخص نے سیدنا عمررضی اللہ عنہ سے کہا: اے عمر رضی اللہ عنہ، اللہ سے ڈرو۔
حضرت عمررضی اللہ عنہ کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر آئیں، اور کہا:
تم میں خیر و بھلائی نہیں رہے گی اگر مجھے ایسی بات نہیں کروگے تو، اور مجھ میں خیر و بھلائی نہیں ہوگی اگر میں ایسی بات قبول نہیں کرونگا تو۔
******
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے منبر پر کھڑے ہو کر عورتوں سے مہر کم کرنے کو کہا تو مسجد کے آخر سے ایک عورت نے کھڑے ہو کر کہا؛ اے امیر المؤمنین، اللہ تبارک و تعالیٰ تو فرماتے ہیں (وَآتَيْتُمْ إِحْدَاھنَّ قِنطَارًا فَلَا تَأْخُذُوا مِنْہ ُ شَيْئًا)(اور پہلی عورت کو بہت سا مال دے چکے ہو تو اس میں سے کچھ مت لینا)۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اس عورت نے ٹھیک کہا ہے، عمر سے غلطی ہو گئی ہے۔
******
ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اللہ کی قسم، میں نے عمر رضی اللہ عنہ کو ایسی قمیص پہنے ہوئے دیکھا کہ اُس میں چودہ پیوند لگے ہوئے تھے اور اُس وقت عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ وقت بھی تھے۔
اسی بات کو مشہور شاعر محمود غنیم اس طرح کہتا ہے :
يا من يری عمرا تكسوہ بردتہ - والزيتُ أدمٌ لہ والكوخُ مأواہُ
يہتز كسری علی كرسيہ فرقًا - من خوفہ وملوكُ الروم تخشاہُ
اے عمررضی اللہ عنہ کی قمیص میں پیوند لگے دیکھنے والے
محض تیل جسکا سالن اور صراحی سے پانے پینےوالا تھا وہ
کسریٰ میں تخت نشین بھی اُس کے نام سے لرزاں تھے
اور روم کے بادشاہ اُس سے ڈرتے تھے
******
فارس کا وزیر ھرمزان آپ رضی اللہ عنہ کو تلاش کرتے ہوئے ایک درخت کے پاس پہنچا جس کے نیچے سیدنا عمررضی اللہ عنہ کو پیوند لگی قمیص پہنے اور بغیر کسی پہریدار کے سوتے دیکھ کر کہہ اُٹھا :
تو نے حکومت کی، انصاف کیا، امن دیا اور بے خوف سویا
عرب شاعر حافظ ابراہیم اس مقولے کو اپنے شعروں میں اس طرح بیان کرتا ہے:
فقال قولۃ حق أصبحت مثلا - وأصبح الجيل بعد الجيل يرويھا
أمنت لما أقمت العدل بينھم - فنمتَ نوم قرير العين ھانیھا
پس اُس نے جو حق کی بات کہی وہ ضرب المثل بن گئی
نسل در نسل آنے والے یہ بات دہراتے رہیں گے
میں ایمان لایا جب تونے اُن کے درمیان ؑانصاف کی عدالت کی
اور اسی لیئے تو تو اتنی بے فکری سے سویا
******
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے تھے: اللہ کی قسم، اگر دجلہ کے دور دراز علاقے میں بھی کسی خچر کو راہ چلتے ٹھوکر لگ گئی تو مجھے ڈر لگتا ہے کہیں اللہ تعالیٰ مُجھ سے یہ سوال نا کردیں اے عمر، تو نے وہ راستہ ٹھیک کیوں نہیں کرایا تھا؟
******
ایک بار اپنے بچوں کے ہاتھ میں میٹھے کا ٹکڑا دیکھ لیا تو اپنی بیوی سے استفسار کیا: اس میٹھے کے بنانے کیلئے تیرے پاس پیسے کدھر سے آئے؟
اُس نے جواب دیا: بیت المال سے آنے والا آٹا تھوڑا تھوڑا بچتا تھا جسے ملا کر یہ میٹھا بنا لیا۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تو آٹا بچا پاتی ہے اور مسلمانوں میں ایسے بھی ہیں جن کو آٹا میسر ہی نہیں!
فوراً ہی اپنے بچوں کے ہاتھوں سے میٹھے ٹکڑے لئیے اور کہا: مسلمانوں کے بیت المال کو جا کر واپس کر دو۔
******
ایک بار حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بیوی کو میٹھا کھانے کی طلب ہوئی تو آپ نے اُسے کہا: کہاں سے پیسے لاؤں جس سے تجھے میٹھا خرید کر دوں؟
******
حضرت عمررضی اللہ عنہ کی بیوی (عاتکہ) کہتی ہیں کہ: عمررضی اللہ عنہ بستر پر سونے کیلئے لیٹتے تھے تو نیند ہی اُڑ جاتی تھی، بیٹھ کر رونا شروع کر دیتے تھے۔
میں پوچھتی تھی: اے امیر المؤمنین، کیا ہوا؟
وہ رضی اللہ عنہ کہتے تھے: مجھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت کی خلافت ملی ہوئی ہے، اور ان میں مسکین بھی ہیں ضعیف بھی ہیں یتیم بھی ہیں اور مظلوم بھی، مجھے ڈر لگتا ہے اللہ تعالیٰ مجھ سے ان سب کے بارے میں سوال کریں گے۔
******
مدینہ میں آئے قحط کے سال (عام الرمادہ) کے دوران، ایک بار منبر پر کھڑے ہوئے تھے کہ اپنے پیٹ سے گُڑگُڑ کی آواز آئی، پیٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: چاہے گُڑگُڑ کر یا گُڑگُڑ نا کر، اللہ کی قسم تجھے اس وقت تک نہیں بھرونگا جب تک مسلمانوں کے بچوں کے پیٹ نہیں بھر جاتے۔
******
ایک بار حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک ایسے خیمے سے گزر ہوا جس میں ایک عورت نے ابھی ابھی بچے کو ولادت دی تھی اور اُسکے اور بھی بچے تھے جبکہ اُسکا خاوند وفات پا چُکا تھا۔ حالات کا علم ہونے پر فوراً بیت المال تشریف لے گئے اور وہاں سے تیل اور آٹا لیکر واپس آئے، آگ جلا کر رات کا کھانا بناکر اُن سب کو پیش کیا۔
عورت نے کہا: اللہ کی قسم، تم عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے بہتر ہو۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ قول پڑھتے ہوئے (أَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ)(دیکھو سب مخلوق بھی اسی کی ہے اور حکم بھی اسی کا ہے) رو پڑے اور کہا:میرے پاس تو کُچھ بھی نہیں بچا ہوا، اور اگر کسی کی کوئی چیز میرے پاس رہتی ہو تو مجھ سے آ کر طلب کر لے۔
******
بیت المقدس کی فتح کے موقع پر پیوند لگی قمیص پہنے ہوئے تشریف لے جانے لگے تو بعض سرداروں نے کہا، اے امیر المؤمنین، اگر خوبصورت لباس زیب تن کر کے تشریف لے جاؤ تو یہ اسلام کیلئے اعزاز کی بات ہوگی۔
حضرت عمررضی اللہ عنہ نے جواب دیا: ہم وہ قوم ہیں جن کو اللہ نے اسلام سے عزت و اعزاز دیا ہے، اس کے سوا کسی بھی چیز کو عزت اور اعزاز سمجھیں تو وہ اللہ نے ذلت ہی دینا ہوگی۔
******
ایک بار صدقہ کیلئے چھوڑے ہوئے اونٹوں کو رنگ سے نشان لگا رہے تھے تو ایک آدمی نے آ کر کہا؛ اے امیر المؤمنین، لائیے مجھے دیجیئے، میں آپ کی جگہ ان اونٹوں پر نشان لگا دیتا ہوں۔
سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا: قیامت والے دن میرے گُناہ اُٹھانے بھی آؤ گے کیا؟
******
مدینے میں رات کو پہریداری کرتے ہوئے ایک گھر کےسامنے سے گزر ہوا، اندر سے ایک دودھ فروش عورت کی آواز آ رہی تھی جو اپنی بیٹی سے کہہ رہی تھی، دودھ میں پانی ڈال کر اسے زیادہ کر لے، عمر رضی اللہ عنہ کونسا دیکھ رہا ہے۔
اُس لڑکی نے اپنی ماں کو جواب دیا؛ مگر اللہ دیکھ رہا ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وہ مکان اپنے ذہن میں رکھا اور اُس لڑکی کا رشتہ اپنے بیٹے عاصم کیلئے مانگ لیا۔
بعد میں اُس لڑکی کی آل سے زاہد اور عادل خلیفہ عمر بن عبدالعزیز نے جنم لیا۔
******
جب مدینہ شریف میں قحط پڑا تو حضرت عمررضی اللہ عنہ اپنے سر پر کھانے کا ٹوکرا رکھ کر فقراء میں بانٹنے کیلئے نکلتے تھے۔
******
قحط کے سال میں حضرت عمررضی اللہ عنہ نے تمام فقراء اور حاجتمندوں سے کہا کہ مدینہ شریف کے گردونواح میں آ کر بس جاؤ، اُن کیلئے خود خیمے نصب کیئے اور کہا: اگر زندہ رہے تو اکھٹے رہیں گے اور مرے بھی تو اکھٹے مریں گے۔
******
ایک آدمی نے آ کر حضرت عمررضی اللہ عنہ کو مشورہ دیا کہ اے امیر المؤمنین، اگر آپ اپنے بیٹے عبداللہ کیلئے کیلئے خلافت کی وصیت کرتے جائیں تو اچھا ہوگا، کیونکہ وہ خلافت کا اہل ہے۔
حضرت عمررضی اللہ عنہ نے کہا: تو نے جھوٹ بولا ہے اللہ تجھے ھلاک کرے، اور میں تیری مکاری کی گواہی دیتا ہوں، میں کس طرح اُس کیلئے خلافت کی وصیت کروں اور مسلمانوں میں اُس سے بہتر لوگ موجود ہیں؟
******
No comments:
Post a Comment
Note: Only a member of this blog may post a comment.