Bismillah

Bismillah

Ayyat

Ayyat

Pakistani Human Resource available

This is to clarify to our all visitor and members that, we obey all Pakistani Rules and Regulations which is implemented in Pakistan by Pakistani Government. Our main purpose of posting and circulating data on our site is only for Pakistani nation knowledge and information. So using this data for any other purpose or misuse of data, we will not take any responsibilities of this type of activities, kindly do not use this data for any illegal activities which is prohibited by Pakistani Government, and follow the all rules of Pakistani Government about Cyber Crimes.

We can provide you all type of Pakistani best Human Resource Skilled and Unskilled for all over the world and specially for Arab countries. If you required any type of Human Resource you can send us email at : joinpakistan@gmail.com We will do our best to satisfy your needs according to your requirement.

If you required a job or if you are searching for a good employee please contact us at : joinpakistan@gmail.com

Charagh

Charagh

Saturday, June 27, 2015

مثالی ازدواجی زندگی

ایک مرتبہ ایک عالمہ کسی عالم کے پاس آئی۔ دین کا علم پڑھی ہوئی تھی۔ کہنے لگی، "میرا خاوند بہت اچھا ہے۔ قسمت والیوں کو ایسے فرشتہ صفت خاوند ملتے ہیں، نہایت متقی، پرہیزگار اور نیکو کار ہے۔ مگر میری ساس نے میری زندگی جہنم بنا دی ہے۔ ذرا ذرا سی بات پہ روک ٹوک کرتی رہتی ہے۔ میری ہر بات میں اُسکو اعتراض رہتا ہے۔ مجھے ذہنی طور پر پُرسکون نہیں ہونے دیتی۔ میں نے پڑھانا ہوتا ہے لیکن اُسکی وجہ سے مجھے پڑھانے میں دقت ہوتی ہے، وغیرہ وغیرہ۔۔۔!"
چنانچہ اس نے اپنی ساس کی بُرائیوں کے پُل باندھ دئیے۔۔۔!!
عالم نے پوچھا کہ "تمھاری ساس میں کوئی پسندیدہ بات بھی ہے۔۔۔؟"
کہنے لگی، "مجھے تو کوئی بھی پسندیدہ بات نظر نہیں آتی۔۔۔!"
عالم نے کہا کہ، "یہ تم نے انصاف کی بات نہیں کی۔ اگر انصاف کی نگاہ سے دیکھتی تو تمھیں اس کے اندر کوئی نہ کوئی اچھائی ضرور نظر آتی۔۔۔!"
وہ پھر کہنے لگی، "حضرت مجھے ابھی تک تو اس میں کوئی اچھائی نظر نہیں آئی۔۔۔!"
عالم نے کہا، "دیکھو، ایک بات بتاؤ، تمہیں اللہ نے خاوند فرشتہ صفت عطا کیا، یہ بات تو تم نے خود ہی کہی ہے، کیا یہ درست ہے۔۔۔۔؟"
کہنے لگی، "ہاں مانتی ہوں۔۔۔۔!"
عالم نے پوچھا، "اس خاوند کی بیوی تمھیں کس نے بنایا۔۔۔؟ یہی تمھاری ساس تھی جو تمھیں پسند کر کے لائی تھی۔ اُس کو اور بھی بڑی لڑکیاں مل سکتی تھیں، کسی اور کو پسند کر لیتی، مگر تمھیں جو پسند کر کے لائی تو یہی ساس تھی جس نے تمھیں اس خاوند کی بیوی بنایا۔ اور تم کہتی ہو کہ میرا خاوند تو فرشتوں جیسی صفت والا ہے، لیکن اُسکی ماں میں ہزار برائیاں ہیں، کیا یہ ناانصافی نہیں ہے۔۔۔۔۔؟"
کہنے لگی "ہاں میں اُنکا یہ احسان مانتی ہوں کہ اتنا اچھا خاوند مجھے دیا، لیکن اُنکی عادات کی وجہ سے میں پریشان ہوں۔۔۔۔!"
عالم نے کہا، "تم اُن کے اِس احسان کا بدلہ ساری زندگی نہیں اتار سکتی۔۔۔!" ھل جزاء الاحسان الا لاحسان (احسان کا بدلہ احسان کے علاوہ نہیں ہو سکتا۔) قرآن کی یہ آیت جانتی ہو۔۔؟"
کہنے لگی "جی پڑھی ہوئی ہے۔۔۔!"
عالم نے کہا، "اس احسان کا بدلہ چکانے کیلئے اب ساری زندگی اپنی ساس کی خدمت کرو کہ اس نے اپنے فرشتے جیسے بیٹے کی بیوی کے طور پر تمھیں چُنا ہے۔۔!"
عالمہ شرمندہ ہوتے ہوئے بولی، "حضرت آپ نے بات سمجھا دی، آج کے بعد کبھی ان کے سامنے اونچا نہیں بولوں گی، اور ان کو اپنی ماں کا درجہ دے کر ان کی ہر بات کو برداشت کروں گی۔ واقعی انہی کے صدقے اللہ نے مجھے اتنا اچھا خاوند عطا کیا۔۔۔!"
"مثالی ازدواجی زندگی کے سنہری اصول" سے ماخوذ

Thursday, June 25, 2015

موت کی گھڑی

کہتے ہیں کسی جگہ ایک دیہاتی نے کافی بھیڑیں پال رکھی تھیں۔ وہ اُن کی بہت اچھے سے نگہداشت کرتا، چارہ ڈالتا، پانی ڈالتا۔ سردیوں میں سردی سے، اور گرمیوں میں گرمی سے بچاتا۔ لیکن وہ یہ سب بے مقصد نہیں کرتا تھا۔ گرمیوں میں وہ اُن سب بھیڑوں کی وقفے وقفے سے اُون اتارتا جسے بیچ کر وہ کافی منافع کماتا اور اگر کبھی اُس کے گھر زیادہ مہمان آتے تو وہ اُن کی خاطر مدارت بھی بھیڑ کے گوشت سے ہی کرتا۔ لیکن اُس کا طریقہ ہوتا تھا کہ وہ کبھی بھی کسی بھیڑ کی اُون اُتارتا یا کسی کو ذبح کرتا تو اپنی حویلی سے ذرا دور جا کر کرتا تاکہ دوسری بھیڑوں کو اِس کا علم نہ ہو۔

اگرچہ وہ دوسری بھیڑوں کے سامنے نہ تو اُون اتارتا اور نہ ہی ذبح کرتا تھا، لیکن جیسے ہی کبھی مالک ایک بھیڑ کو کان سے پکڑ کر باہر لیجاتا تو باقی بھیڑیں دُعائیں مانگنتیں کہ "یااللہ! اُن کی ساتھی زندہ واپس آ جائے۔۔!"۔ اور جب وہ بھیڑ اپنی اُون اتروانے کے بعد خوش قسمتی سے زندہ واپس آ جاتی تو سب بہت خوش ہوتیں کہ "چلو! اُون ہی اتاری ہے ذبح تو نہیں کیا۔۔!"۔ لیکن جب کبھی مالک کسی بھیڑ کو لے کر جاتا اور وہ کافی دیر تک وہ واپس نہ آتی تو باقی بھیڑیں خود ہی سمجھ جاتیں کہ وہ ذبح ہو گئی ہے، پھر کچھ دیر کے لیے سب غمگین اور افسردہ ہو جاتیں، لیکن پھر آہستہ آہستہ بھوک، پیاس مٹانے کے چکر میں سب کچھ بھول جاتیں۔ حالانکہ وہ سب جانتی تھیں کہ یہ سلسلہ کبھی رکنے والا نہیں ہے لیکن پھر بھی وہ پل بھر کے لیے سارے غم بھلا کر چارہ کھانے میں مصروف ہو جاتیں۔ اور یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہتا۔

دوستوں..! اگر غور کریں تو ہم انسانوں کی زندگی بھی اِن بھیڑوں سے مختلف نہیں ہے۔ اگرچہ ہمیں معلوم ہے کہ موت برحق ہے، اور ایک دن واقعی مر جانا ہے۔ لیکن پھر بھی اگر کبھی خوش قسمتی سے ہم میں سے کوئی کسی بڑے حادثے یا بیماری سے بچ جاتا ہے تو ہم سب خوش ہو جاتے ہیں، کہ چلو جان تو بچ گئی۔ اور اگر کبھی خدانخواستہ کوئی چل بستا ہے تو ہم سب اُس کے غم میں گھڑی بھر کے لیے غمگین ہوتے ہیں، آنسو بہاتے ہیں۔ لیکن پھر بھیڑوں کی طرح اپنی روزمرہ زندگی کی مصروفیات میں سب کچھ بھلا کر پھر سے دنیاداری میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ اور یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہتا ہے۔

اللہ ہم سب کو موت کی گھڑی کو یاد رکھنے اور اِس کے لیے کما حقہ تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔۔ آمین
 

Thursday, June 11, 2015

صدقہ ہر بلا کو ٹالتا ہے

وہ مصر کا ایک امیر بزنس مین تھا ابھی اس کی عمر صرف پچاس سال کے لگ بھگ تھی کہ ایک دن اس کو دل میں تکلیف کا احساس ہوا، اور جب اس نے قاہرہ کے سب سے بڑے ہسپتال میں اپنا علاج کرایا تو انہون نے معذرت کرتے ہوئے اسے یورپ جانے کا کہا، یورپ میں تمام ٹیسٹ مکمل کرنے کے بعد وہاں کے ڈاکٹروں نے اسے بتایا کہ تم صرف چند دن کے مہمان ہو، کیونکہ تمھارا دل کام کرنا چھوڑ رہا ہے۔
وہ شخص بائی پاس کروا کر مصر واپس آگیا اور اپنی زندگی کے باقی دن گن گن کر گزارنے لگا۔
ایک دن وہ ایک دکان سے گوشت خرید رہا تھا.جب اس نے دیکھا کہ ایک عورت قصائی کے پھینکے ہوئے چربی کے ٹکڑوں کو جمع کر رہی ہے۔ اُس شخص نے عورت سے پوچھا تم انکو کیوں جمع کر رہی ہو؟
عورت نے جواب دیا کہ گھر میں بچے گوشت کھانے کی ضد کر رہے تھے، چونکہ میرا شوہر مر چکا ہے اورکمانے کا کوئی ذریعہ بھی نہیں ہے اس لیے میں نے بچوں کی ضد کی بدولت مجبور ہوکر یہ قدم اٹھایا ہے، اس پھینکی ہوئی چربی کے ساتھ تھوڑا بہت گوشت بھی آجاتا ہے جسے صاف کر کے پکا لوں گی۔
بزنس مین کی انکھوں میں آنسو آگئے اس نے سوچا میری اتنی دولت کا مجھے کیا فائدہ میں تو اب بس چند دن کا مہمان ہوں، میری دولت کسی غریب کے کام آجائے اس سے اچھا اور کیا۔
اس نے اسی وقت اس عورت کو کافی سارا گوشت خرید کر دیا اور قصائی سے کہا اس عورت کو پہچان لو، یہ جب بھی آئے اور جتنا بھی گوشت مانگے اسے دے دینا اور پیسے مجھ سے لے لینا۔
اس واقعے کے بعد وہ شخص اپنے روزمرہ کے معمولات میں مصروف ہوگیا، کچھ دن اسے دل میں کسی تکلیف کا احساس نہ ہوا، تو اس نے قاہرہ میں موجود لیبارٹری میں دوبارہ ٹیسٹ کرائے، ڈاکٹروں نے بتایا کہ رپورٹکے مطابق آپ کے دل میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، لیکن تسلی کیلئے آپ دوبارہ یورپ میں چیک اپ کروا آئیں۔
وہ شخص دوبارہ یورپ گیا اور وہاں ٹیسٹ کرائے، رپورٹس کے مطابق اس کے دل میں کوئی خرابی سرے سے تھی ہی نہیں، ڈاکٹر حیران رہ گئے اور اس سے پوچھا کہ آپ نے ایسا کیا کھایا کہ آپ کی بیماری جڑ سے ختم ہوگئی۔
اُسے وہ گوشت والی بیوہ یاد آئی اور اس نے مسکرا کر کہا، علاج وہاں سے ہوا جس پر تم یقین نہیں رکھتے، بے شک ھمارے پیارے نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ کہا تھا کہ صدقہ ہر بلا کو ٹالتا ہے..

سمجھدار کے لیے اشارہ ہی کافی ہے

 سمجھدار کے لیے اشارہ ہی کافی ہے
 
اگر انڈین حکومت یہ سمجھ کر پاکستان پر حملہ کرتا ہے کہ یہ تو آپس میں ہی لڑتے رہتے ہیں اور اندر سے کمزور ہو چکے ہوں گے؟ لیکن یہ کیا جانے کہ بھائی آپس میں تو لڑتے ہیں آپنی حیثت جتانے کے لیے اور اگر ان کے بھائی سے کوئی باہر والا آکر لڑے تو وہ یکجا ہو کر لڑتے ہیں، یہی حال پاکستانی قوم کا بھی ہے، آپس میں تو لڑتے ہیں لیکن اپنے اور بھائی کے دشمن کو نہں چھوڑتے۔

Tuesday, June 9, 2015

ﭘﺎﭘﺎ ﯾﮧ ' ﮐﺎﻣﯿﺎﺏ ﺯﻧﺪﮔﯽ ' ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ؟

ﺍﯾﮏ ﺑﯿﭩﮯ ﻧﮯ ﺑﺎﭖ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ - ﭘﺎﭘﺎ ﯾﮧ ' ﮐﺎﻣﯿﺎﺏ ﺯﻧﺪﮔﯽ ' ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ؟


ﻭﺍﻟﺪ، ﺑﯿﭩﮯ ﮐﻮ ﭘﺘﻨﮓ ﺍﮌﺍﻧﮯ ﻟﮯ ﮔﺌﮯ .


ﺑﯿﭩﺎ ﺑﺎﭖ ﮐﻮ ﻏﻮﺭ ﺳﮯ ﭘﺘﻨﮓ ﺍﮌﺍﺗﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ...


ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺩﯾﺮ ﺑﻌﺪ ﺑﯿﭩﺎ ﺑﻮﻻ،


ﭘﺎﭘﺎ .. ﯾﮧ ﺩﮬﺎﮔﮯ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﭘﺘﻨﮓ ﺍﻭﺭ ﺍﻭﭘﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎ ﭘﺎ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ، ﮐﯿﺎ ﮨﻢ ﺍﺳﮯ ﺗﻮﮌ ﺩﯾﮟ !!


ﯾﮧ ﺍﻭﺭ ﺍﻭﭘﺮ ﭼﻠﯽ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ ...


ﻭﺍﻟﺪ ﻧﮯ ﺩﮬﺎﮔﮧ ﺗﻮﮌ ﺩﯾﺎ ..


ﭘﺘﻨﮓ ﺗﮭﻮﮌﺍ ﺳﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻭﭘﺮ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻟﮩﺮﺍ ﮐﺮ ﻧﯿﭽﮯ ﺁﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺭ ﺍﻧﺠﺎﻥ ﺟﮕﮧ ﭘﺮ ﺟﺎ ﮐﺮ ﮔﺮ ﮔﺌﯽ ...


ﺗﺐ ﺑﺎﭖ ﻧﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﻮ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﺎ ﻓﻠﺴﻔﮧ ﺳﻤﺠﮭﺎﯾﺎ . ،،،،


ﺑﯿﭩﺎ ..


' ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﮨﻢ ﺟﺲ ﺍﻭﻧﭽﺎﺋﯽ ﭘﺮ ﮨﯿﮟ ..


ﮨﻤﯿﮟ ﺍﮐﺜﺮ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮐﭽﮫ ﭼﯿﺰﯾﮟ، ﺟﻦ ﺳﮯ ﮨﻢ ﺑﻨﺪﮬﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ ﻭﮦ ﮨﻤﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻭﭘﺮ ﺟﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﺭﻭﮎ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ


ﺟﯿﺴﮯ :


ﮔﮭﺮ،


ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ،


ﻧﻈﻢ ﺿﺒﻂ،


ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﻭﻏﯿﺮﮦ


ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﺍﻥ ﺳﮯ ﺁﺯﺍﺩ ﮨﻮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ...


ﺍﺻﻞ ﻣﯿﮟ ﯾﮩﯽ ﻭﮦ ﺩﮬﺎﮔﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﮨﻤﯿﮟ ﺍﺱ ﺍﻭﻧﭽﺎﺋﯽ ﭘﺮ ﺑﻨﺎ ﮐﮯ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ..


ﺍﻥ ﺩﮬﺎﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﮨﻢ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﺗﻮ ﺍﻭﭘﺮ ﺟﺎﺋﯿﮟ


ﻟﯿﮑﻦ
ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﻭﮨﯽ ﺣﺸﺮ ﮨﻮﮔﺎ ﺟﻮ


ﺑﻦ ﺩﮬﺎﮔﮯ ﮐﯽ ﭘﺘﻨﮓ ﮐﺎ ﮨﻮﺍ ... '

 

" ﻟﮩﺬﺍ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﮔﺮ ﺗﻢ ﺑﻠﻨﺪﯾﻮﮞ ﭘﺮ ﺑﻨﮯ ﺭﮨﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﻮ ﺗﻮ، ﮐﺒﮭﯽ ﺑﮭﯽ ﺍﻥ ﺩﮬﺎﮔﻮﮞ ﺳﮯ ﺭﺷﺘﮧ ﻣﺖ ﺗﻮﮌﻧﺎ "..


" ﺩﮬﺎﮔﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﺘﻨﮓ ﺟﯿﺴﮯ ﺗﻌﻠﻖ ﮐﮯ ﮐﺎﻣﯿﺎﺏ ﺗﻮﺍﺯﻥ ﺳﮯ ﻣﻠﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺍﻭﻧﭽﺎﺋﯽ ﮐﻮ ﮨﯽ ' ﮐﺎﻣﯿﺎﺏ ﺯﻧﺪﮔﯽ ' ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺑﯿﭩﺎ !"


ایمان