Bismillah

Bismillah

Ayyat

Ayyat

Pakistani Human Resource available

This is to clarify to our all visitor and members that, we obey all Pakistani Rules and Regulations which is implemented in Pakistan by Pakistani Government. Our main purpose of posting and circulating data on our site is only for Pakistani nation knowledge and information. So using this data for any other purpose or misuse of data, we will not take any responsibilities of this type of activities, kindly do not use this data for any illegal activities which is prohibited by Pakistani Government, and follow the all rules of Pakistani Government about Cyber Crimes.

We can provide you all type of Pakistani best Human Resource Skilled and Unskilled for all over the world and specially for Arab countries. If you required any type of Human Resource you can send us email at : joinpakistan@gmail.com We will do our best to satisfy your needs according to your requirement.

If you required a job or if you are searching for a good employee please contact us at : joinpakistan@gmail.com

Charagh

Charagh

Tuesday, March 30, 2010

Article 'Woh Jinhe Vatan Ko Lotna Hy' by Rehan Ahmed Yousufi



وہ جنھیں وطن کو لوٹنا ہے

(ریحان احمد یوسفی)

 

بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد خلیجی ممالک میں پرکشش تنخواہوں اور اجرتوں پر کام کرتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ان کی تعداد 14 سے 15 لاکھ ہے جن میں سے 9 لاکھ افراد صرف سعودی عرب میں مقیم ہیں ۔ دنیا کے دوسرے خطوں مثلاً امریکہ، کینیڈا ، مشرقِ بعید، برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک میں رہنے والے پاکستانیوں کے برعکس ان لوگوں کا خصوصی امتیاز یہ ہے کہ سالہا سال ملک سے باہر رہنے کے باوجود ان کا اور ان کے بچوں کا مستقبل پاکستان ہی سے وابستہ رہتا ہے اور اپنی دھرتی سے ان کا رشتہ نہیں ٹوٹتا ۔ اس کا سبب خلیجی ممالک کا وہ قانون ہے جس کے تحت کسی غیر ملکی کے لیے عملی طور پر وہاں کی شہریت حاصل کرنا ممکن نہیں۔ چنانچہ اپنی زندگی کا بیشتر حصہ وہاں گزاردینے والے غیر ملکیوں کا مقدر بھی یہی ہے کہ آخرکار انہیں اپنے وطن کو لوٹنا ہے۔

 

خلیج میں کام کرنے والے ان پاکستانیوں کو ایک دوسری صورتِ حال سے بھی واسطہ پیش آتا ہے۔ وہ یہ کہ ان ممالک میں کسی فرد کی مدتِ قیام کا تمام تر انحصار اس شخص یا کمپنی پر ہوتا ہے۔ جس کے ویزہ پر وہ یہاں ملازمت کے لیے آیا ہوتا ہے۔ اسے یہاں کی اصطلاح میں "کفیل" کہتے ہیں۔ جب تک کفیل کی مرضی ہوگی وہ آدمی یہاں کام کرتا رہے گا اور جب وہ چاہے گا اسے نہ صرف ملازمت سے فارغ کردے گا، بلکہ فورا ً ملک چھوڑنے پر بھی مجبور کردے گا۔ یہ کوئی انفرادی سطح پر پیش آنے والا معاملہ نہیں، بلکہ یہ حکومت کی سوچی سمجھی پالیسی ہے جس کے تحت وہ سرکاری اور نجی شعبوں کو مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنے ہاں سے غیر ملکیوں کو نکال کر زیادہ سے زیادہ مقامی لوگوں کو روزگار مہیا کریں۔

 

ان مسائل کی بنا پر یہاں کام کرنے والوں میں ایک خاص قسم کی ذہنیت پیدا ہوجاتی ہے، جس کے باعث انہیں ہمیشہ احساس رہتا ہے کہ یہ جگہ ان کے مستقل قیام کی نہیں ہے اور یہ کہ ایک روز انہیں بہرحال اپنے وطن کو لوٹنا ہے۔ ان چیزوں سے ان کے اوپر مختلف اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ایک اثر ان کی زندگی پر یہ پڑتا ہے کہ یہ اس بات کی ہروقت کوشش کرتے رہتے ہیں کہ جب وہ اپنے وطن کو لوٹ کر جائیں تو خالی ہاتھ نہ ہوں، بلکہ ان کے پاس کافی سرمایہ بچت کی صورت میں موجود ہو جس سے وہ اپنے مستقل وطن میں بہتر زندگی گزارسکیں ۔ چنانچہ یہ لوگ اپنی کمائی کا بڑا حصہ اپنے ملک میں انویسٹ کرتے ہیں۔ بعض لوگ بچت کی کسی اسکیم میں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ بعض زمین و جائیداد میں رقم لگاتے ہیں ۔ بعض شیئرز خریدلیتے ہیں اور بعض اپنا پیسہ فارن کرنسی کی شکل میں محفوظ رکھتے ہیں ۔

 

دوسرا اثر جو ان کے طرزِ زندگی پر پڑتا ہے اسے بجاطور پر "سیکنڈ ہینڈ" زندگی کا نام دیا جاسکتا ہے۔ ایک طرف تو ان لوگوں کو اپنے مستقبل کے لیے کچھ رقم پس انداز کرنی ہوتی ہے تو دوسری طرف یہ خوف دامن گیر رہتا ہے کہ کسی بھی لمحے انہیں یہاں سے نکال دیا جائے گا۔ ایسی صورت میں ان کا تمام تر ساز و سامان دھرے کا دھرا رہ جائے گا۔ چنانچہ وہ ہر معاملے میں سیکنڈ ہینڈ، گزارے کے قابل اور سستی چیز کو ترجیح دیتے ہیں تاکہ جاتے وقت اگر کسی چیز کو پھینکنا بھی پڑے تو زیادہ دکھ نہ ہو۔ ورنہ قیمتی سامان ایسے وقت میں کوڑیوں کے مول ہی بکتا ہے۔ چنانچہ یہاں رہنے والے کم و بیش تمام لوگوں کا طرزِ عمل یہی ہوتا ہے کہ وہ فرسٹ کلاس تنخواہیں لے کر سیکنڈ کلاس زندگی گزارتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں وہ جس طرح کی پرآسائش زندگی گزارسکتے ہیں، اس سے کم درجے کی زندگی اختیاری طور پر گزارتے ہیں۔

 

خلیجی ممالک میں کام کرنے والے ان پاکستانیوں کی زندگی اُن لوگوں کے لیے بہترین نمونہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر یقین رکھتے ہیں ۔ وہ لوگ جنھیں یقین ہے کہ ان کا اصلی وطن جنت ہے ۔ اس دنیا میں تو وہ صرف کمانے کے لیے آئے ہیں اور اس کمائی کا بہترین مصرف یہ ہے کہ اسے اپنے اصل وطن یعنی جنت کی زمین میں انویسٹ کریں، خدا کی قرضِ حسنہ کی اسکیم میں لگائیں، اللہ کی رحمت کے شیئرز خریدیں اور زیادہ سے زیادہ نیکیوں کی فارن کرنسی محفوظ رکھیں۔ غرض یہ کہ وہ اپنی تمامتر صلاحیتوں اور بہترین مساعی کے سات

No comments:

Post a Comment

Note: Only a member of this blog may post a comment.