بیٹی یا بیٹا
اللہ عزوجل کا دستور ہے کہ وہ کسی کو صرف بیٹی دیتا ہے، کسی کو صرف بیٹا اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کو بانجھ بنا دیتا ہے یعنی نہ بیٹی دیتا ہے نہ بیٹا اور اللہ عزوجل کا یہ دستور صرف عام انسانوں تک ہی محدود نہیں بلکہ اس نے اپنے مقرب و مخصوص بندوں یعنی انبیاء علیہم السلام کو بھی اس خصوص میں چاروں طرح کا بنایا ہے. چنانچہ حضرت لوط اور حضرت شعیب علیہم السلام کے صرف بیٹیاں ہی تھیں بیٹے نہیں تھے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے صرف بیٹے ہی تھے کوئی بیٹی نہیں تھی اور اپنے پیارے حبیب سرور کائینات، سرکاردوعال م حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو چار بیٹیاں اور چار بیٹے عطا فرمائے جبکہ حضرت عیسٰی اور حضرت یحیٰی علیہم السلام کے کوئی اولاد نہیں ہوئی.
---روح البیان جلد 8 صفحہ 342---
قرآن مجید فرقان حمید میں اللہ رب العزت جل جلالہ نے اس مضمون کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:
ترجمہ کنزالایمان : "چاہے بیٹیاں عطا فرمائے. اور جسے چاہے بیٹے دے یا دونوں ملادے بیٹے اور بیٹیاں اور جسے چاہے بانجھ کردے بیشک وہ علم و قدرت والا ہے."
سورۃ الشورٰی ع5.
اللہ تعالٰی بیٹی دے یا بیٹا یا دونوں دے اور یا پھر بانجھ بنادے بہر حال یہ سبھی اس زات پاک کی نعمتیں و رحمتیں ہیں. مزکورہ بالا آیت کے آخر میں یعنی "بیشک وہ علم و قدرت والا ہے." میں اسی طرف اشارہ ہے کہ کون اسقابل ہے کہ اسے بیٹی ملے، کون اس قابل ہے کہ اسے بیٹا ملے، کون اس قابل ہے کہ اسے دونوں ملیں اور کون ایسا ہے کہ اس کے حق میں یہی بہتر ہے کہ اسکے کوئی اولاد ہی نہ ہو. ان باتوں کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے کیونکہ وہ مکمل علم والا اور مکمل قدرت والا ہے اور انسان اپنے ہزار علم کہ باوجود اس معاملہ کو نہیں جان سکتا کہ انسان کہ حق میں کیا بہتر ہے اور کیا نہیں ہے. قرآن مجید میں اس بارے میں رب تعالٰی عزوجل کا ارشاد پاک ہے کہ:
ترجمہ کنزالایمان : اور قریب ہے کہ کوئی بات تمہیں بری لگے اور وہ تمہارے حق میں بہتر ہو اور قریب ہے کہ کوئی بات تمہیں پسند آئے اور وہ تمہارے حق میں بری ہو اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے.
سورۃ البقرہ رکوع26.
اس لیئے بندوں کو چاہیئے کہ اگر اپنی خواہش کہ مطابق کوئی چیز نہ مل سکے تو ہرگز ہرگز ناراض نہ ہوں بلکہ یہ سوچ کر صبر کریں کہ ہم اس چیز کے لائق ہی نہیں تھے اس لیئے ہمیں اللہ عزوجل نے عطا نہیں فرمائی وہ علیم و قدیر ہے وہ خوب جانتا ہے کہ کون کس چیز کا اہل ہےاور کون اہل نہیں ہے.
اسکے الطاف تو ہیں عام شہیدی سب پر
تجھ سے کیا ضد تھی؟ اگر تو کسی قابل ہوتا
آجکل دیکھا گیا ہے کہ بعض لوگ بیٹیوں کی پیدائش پر منہ بگاڑ لیتے ہیں بلکہ بعض بد نصیب تو اول فول بک کر کفران نعمت و رحمت کے گناہ میں مبتلا ہو جاتے ہیں. واضح رہے کہ بیٹیوں کی پیدائش پر منہ بگاڑ کر ناراض ہونا یہ زمانہ جاہلیت کی منحوس روایت ہے. چناچہ اللہ عزوجل کا ارشاد پاک ہے کہ:
ترجمہ کنزالایمان : اور جب ان میں کسی کو بیٹی ہونے کی خوش خبری دی جاتی ہے تو دن بھر اسکا منہ کالا رہتا ہے. اور وہ غصہ کھاتا ہے لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے اس بشارت کی بڑائی کے سبب کیا اسی زلت کے ساتھ رکھے گا یا اسے مٹی میں دبادے گا ارے بہت ہی برا حکم لگاتے ہیں.
سورۃ النحل رکوع7.
خوب جان لیجئے کہ مسلمانوں کا اسلامی طریقہ یہ ہے کہ بیٹیوں کی پیدائش پر بھی خوش ہوکر اللہ تعالٰی عزوجل کی اس نعمت کا شکر ادا کرے اور مندرجہ زیل احادیث کی بشارتوں پر ایمان رکھ کر سعادت دارین کی کرامتوں سے سرفراز ہو.
حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس زیل میں فرمایا
1.
عورت کہ لیئے یہ بہت ہی مبارک ہے کہ اسکی پہلی
.اولاد لڑکی ہو
2.
جس شخص کو کچھ بیٹیاں ملیں اور وہ انکے ساتھ نیک سلوک کرے یہانتک کہ کفو میں انکی شادی کردے تو وہ بیٹیان اسکے لیئے جہنم سے آڑ بن جائیں گی.
3.
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگ بیٹیوں کو برا مت سمجھو اس لیئے کہ میں بھی چند بیٹیوں کا باپ ہوں.
4.
جب کوئی لڑکی پیدا ہوتی ہے تو اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ اے لڑکی! تو زمین پر اتر. میں تیرے باپ کی مدد
کرونگا
No comments:
Post a Comment
Note: Only a member of this blog may post a comment.