ہم مغرب سے آنے والی ہر چیز کے مخالف نہیں۔ مگر کسی دوسری قوم کے وہ تہوار جن کا تعلق کسی تہذیبی روایت سے ہو ، انہیں قبول کرتے وقت بڑا محتاط رہنا چاہیے۔ یہ تہوار اس لیے منائے جاتے ہیں تاکہ کچھ عقائد و تصورات انسانی معاشروں کے اندر پیوست ہو جائیں۔
مسلمان ، عیدالاضحیٰ کے تہوار پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خدا سے آخری درجہ کی وفاداری کی یاد مناتے ہیں۔ آج ہم ویلنٹائن ڈے مناتے ہیں تو گویا ہم اس نقطہء نظر کو تسلیم کر رہے ہیں کہ ۔۔۔۔۔۔
مرد و عورت کے درمیان آزادانہ تعلق پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں !
اہل مغرب کی طرح ہمیں اپنی بیٹیوں سے "عصمت" مطلوب نہیں !
اپنے نوجوانوں سے پاکدامنی کا مطالبہ ہم نہیں کریں گے !
عیدالاضحیٰ کے موقع پر کوئی ہندو ، گائے کو ذبح کر کے مسلمانوں کے ساتھ شامل ہونے کا تصور نہیں کر سکتا۔ لیکن ہندوؤں کی موجودہ نسل گائے کے تقدس سے بےنیاز ہو کر عید کی خوشیوں میں مسلمانوں کے ساتھ شریک ہو جائے تو عین ممکن ہے کہ ان کی اگلی نسلیں صبح سویرے مسلمانوں کے ساتھ گائیں ذبح کرنے لگیں۔
ٹھیک اسی طرح آج ہم "ویلنٹائن ڈے" پر خوشیاں منا رہے ہیں اور ہماری اگلی نسلیں حیا و عصمت کے ہر تصور کو ذبح کر کے "ویلنٹائن ڈے" منائیں گی !!
ویلنٹائن ڈے کے خرافات هماری نوجوان نسل کو تباه کرنے کا ایک خوبصورت منصوبہ هے
ہم محبت کے خلاف نہیں، ایسی محبت کے خلاف ہیں، جو کمرشل ہو، جو بازاروں اور پارکوں میں نظر آئے، یہ محبت نہیں ہے، یہ مغرب جیسی آزادی کی طرف پہلا قدم ہے۔اس کے بعد کیا ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ ہی جو مغرب میں ہوتا ہے۔ اس سے اگلا قدم جنسی آزادی اس کے بعد خاندانی رشتے ختم ۔۔۔۔۔۔۔ طلاقیں عام ۔۔۔۔۔۔۔ کسی کے بیٹے کی پرورش کوئی اور کرے گا، ماں باپ کے لیے بہترین جگہ " اولڈ ھومز" ہونگے، جن کا ویسےرواج ابھی سے شروع ہوچکا ہے ۔۔
جن لوگوں کے پیچھے ہم چل رہے ہیں، یہ تو ساری زندگی ایک " بندے" یا "بندی" کے لیے محبت کے جذبات نہیں رکھتے،۔ ہر ویلنٹائن ڈے پر ان کو محبوبہ یا محبوب کا نیاماڈل مل جاتا ہے، پرانے کسی اور کے ساتھ ، جذباتی وابستگی رکھ لیتے ہیں۔
یہ ہمارے معاشرے کو تباہ کرنے کا منصوبہ ہے، کیونکہ مغرب کا خیال ہے کہ پاکستان میں جب تک لوگ، تہذیب کے پابند رہیں گے، یہاں سے ہمیشہ انتہا پسند اٹھتے رہیں گے جو مغرب کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ ہم بہت پیچھے ہیں،۔وہاں تو ہم جنس پرستی بھی عام ہوگئ ہے، یعنی ایک ہی جنس کے لوگ ایک دوسرے سے شادی کرسکتے ہیں ۔۔۔یہ سب آہستہ آہستہ ہوگا ابھی ہم صرف ابتدائ مرحلے میں ہیں، ابھی ہم کو اوپر کی ملائی نظر آرہی ہے،۔
جب ہم زوال کا شکار ہونگے تو ہمیں پھر پتا چلے گا، جس کو ہم "پھول'' سمجھے تھے وہ تو گوبر نکلا ، مگر تب تک دیر ہوجائے گی
اسے دور کی کوڑی مت خیال کیجیے۔
ہماری موجودہ نسلیں صبح و شام اپنے گھروں میں مغربی فلمیں دیکھتی ہیں۔ عریاں و فحش مناظر ان فلموں کی جان ہوتے ہیں۔ ان میں ہیرو اور ہیروئین شادی کے بندھن میں جڑے بغیر ان تمام مراحل سے گزر جاتے ہیں جن کا بیان میاں بیوی کے حوالے سے بھی ہمارے ہاں معیوب سمجھا جاتا ہے۔
ایسی فلمیں دیکھ دیکھ کر جو نسلیں جوان ہوں گی وہ "ویلنٹائن ڈے" کو ایسے نہیں منائیں گی جیسا کہ آج اسے منایا جا رہا ہے۔
جب وہ نسلیں اس دن کو منائیں گی تو خاندان کا ادارہ درہم برہم ہو جائے گا۔ اپنے باپ کا نام نہ جاننے والے بچوں سے معاشرہ بھر جائے گا۔ مائیں "حیا" کا درس دینے کے بجائے اپنی بچیوں کو مانع حمل طریقوں کی تربیت دیا کریں گی۔ سنگل پیرنٹ (Single Parent) کی نامانوس اصطلاح کی مصداق خواتین ہر دوسرے گھر میں نظر آئیں گی۔
آج سے 1400 برس قبل مدینہ کے تاجدار (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو معاشرہ قائم کیا تھا اسکی بنیاد "حیا" پر رکھی گئی تھی۔ جس میں زنا کرنا ہی نہیں ، اسکے اسباب پھیلانا بھی ایک جرم تھا۔ اس معاشرے میں زنا ایک ایسی گالی تھا جو اگر کسی پاکدامن پر لگا دی جائے تو اسے کوڑے مارے جاتے تھے۔ جس میں عفت کے بغیر مرد و عورت کا معاشرہ میں جینا ممکن نہ تھا۔ اس معاشرہ کے بانی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ کر دیا تھا کہ :
" جب تم حیا نہ کرو تو جو تمھارا جی چاہے کرو " !!
تاجدارِ مدینہ (صلی اللہ �
No comments:
Post a Comment
Note: Only a member of this blog may post a comment.