پاکستان میں کیا ہورہا ہے۔ کیا پاکستان کے موجودہ حالات کا تعلق فرقہ واریت سے ہے
جیسا کہ سارا پاکستانی میڈیا یہی بات لکھ رہاہے اور پاکستانی میڈیا یہ بات کیوں لکھ رہا
ہے اس لیے کہ مغربی میڈیا لکھ رہا ہے اور مغربی میڈیا کیوں لکھ رہا ہے کیونکہ
یہ اس کا ایجنڈا ہے۔ اب جو بھی ہماری بات پڑھے گا یہی کہے گا کہ ثبوت لائیے چلیں
ثبوت کے لیے ویتنام چلتے ہیں جب امریکی وہاں سے بھاگ رہے تھے تو انہوں نے
کمبوڈیا کو جلا کر راکھ کردیا تھا۔ ویتنام کو تو تباہ کرچکے تھے لیکن چاول کھانے والے
لوگوں سے خود مار کھا چکے تھے۔ ویتنام کے تجربے نے انہیں بہت کچھ سکھایا مثال
کے طور پر 20 سال تک امریکیوں نے بیرون ملک بڑا فوجی آپریشن نہیں کیا۔ پھر جب
عراق کا آپریشن کیا تو پچھلے تجربے کی روشنی میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ اب جنازے
یعنی تابوت نہیں آئیں گے۔ چپکے چپکے دل کے ٹکڑوں کے ٹکڑے لائے جائیں گے اور
ویتنام کے 58 ہزار فوجیوں کی طرح کی یادگار بھی نہیں بنائی جائے گی۔ لیکن اس کے
باوجود کہ ویتنام کے مقابلہ میں عراق میں اترنے والا امریکی فوجی پہلے سے سوگنا
زیادہ مسلح محفوظ اور ناقابل شکست بنا دیا گیا تھا ہلاکتیں اسی طرح ہوتی رہیں یعنی 58
ہزار کے مقابلہ میں 5 ہزار سے زیادہ چنانچہ پرانے زمانے کے گلی محلے کے بچوں
کی طرح میچ ہارنے والے شور مچاتے ہوئے اپنے محلے کی طرف بھاگے جیت
گئے جیت گئے جیت گئے اور جیتنے والے حیران ہوکر انہیں دیکھ رہے تھے کہ
جیتے تو ہم ہیں لیکن یہ کیوں شور مچاتے ہوئے جارہے ہیں چنانچہ جیتنے والوں کو مزید
الجھانے یا اس حقیقت کے اظہار سے باز رکھنے کے لیے وہاں شیعہ سنی فساد کروادیا
امریکی برطانوی اور مغربی میڈیا نے عراق میں فرقہ وارانہ فساد کی خبریں دینا شروع
کیں۔ لیکن لوگوں نے دیکھا کہ حضرت علیؓ کے یوم وفات اور یوم ولادت پر شیعہ سنی
ایک ساتھ لاکھوں کی تعداد میں ایک جگہ جمع تھے اور اسی طرح مختلف مذہبی تہواروں
پر یکجا رہے لیکن بازاروں، مسجدوں اور مختلف عوامی مراکز پر بم دھماکے کروائے
جاتے رہے اور یہی تاثر دیا گیا کہ شیعہ سنی لڑرہے ہیں۔ مغربی میڈیا یہی خبریں دیتا رہا
شام کے بارے میںبھی یہی کہا جارہا ہے کہ وہاں کی سنی اکثریت علومی اقلیت کو دبانے
کی کوشش کررہی ہے۔ حالانکہ یہ کام حافظ الاسد کے طویل اور بشارالاسد کے ابتدائی
ادوار میں ہوسکتا تھا۔
اب افغانستان سے انخلا یا فرار جو بھی کہہ لیں اس کے ساتھ افغانستان کا کمبوڈ یا پاکستان
کو بنایا جارہا ہے کیونکہ بغیر زراعت، پانی، ریلوے اور ایٹم بم والے ملک کے غریبوں
سے شکست کی خبر کو ہضم نہیں کیا جاسکتا چنانچہ سارا ملبہ پاکستان پر ڈالا جارہا ہے۔
2014 دور نہیں اس لیے پاکستان میں بھی شیعہ سنی فساد پھیلانے کی کوشش جاری
ہے یہ کوشش کئی برس سے جاری ہے لیکن کامیابی نہیں ہورہی تھی۔ متحدہ مجلس
عمل کے زمانے میں بھی یہ کوشش کی گئی جس روز مفتی شامز ئی کو قتل کیا گیا اس
کے اگلے روز مفتی صاحب کے جنازے کے فوراً بعد نمائش کے قریب امام بارگاہ علی
رضا میں دھماکا ہوا اور میڈیا نے تاثر دینے کی کوشش کی کہ یہ مفتی نظام الدین شامزئی
کے قتل کا جواب ہے اور لوگوں سے تبصرے بھی اسی بنیاد پر لیے جانے لگے لیکن اس
وقت اے آروائی کے ڈاکٹر شاہد مسعود نے مجلس عمل کراچی کے صدر حسن الترابی
شہید کو لائن پر لیا اور سوال کیا کہ کیا یہ دھماکا مفتی شامزئی کے قتل کا ردعمل ہے؟ اس
پر حسن ترابی نے وہ تاریخی جواب دیا تھا جو ریکارڈ پر ہے جسے میڈیا چھپا دیتا ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ جی نہیں یہ دھماکا ان ہی قوتوں نے کیا ہے جو مفتی شامزئی کے قتل
میں ملوث ہیں۔ ان کی یہ سوچ آج بھی عام ہے اور ہم نے ایک بینک مینجر سے جو ہزارہ
قبیلے کے ہیں یہی سوال کیا کہ آپ لوگوں کو کون قتل کررہا ہے۔ سپاہ صحابہ یا کوئی اور
تو اس نے اطمینان سے جواب دیا امریکی ایجنٹ، ہزارہ قبیلہ والوں کا قتل کراچی اور
ملک کے دیگر علاقوں میں کیوں نہیں ہورہا ؟ ان کا سوال تھا کہ کیا باقی ملک میں
سنیوں کو ہزارے والے شیعوں سے دشمنی نہیں بات یہ ہے کہ امریکی قوتیں پاکستان
افغانستان اور ایران پر تسلط چاہتی ہیں پاکستان کے تعلقات ایران سے خراب کرنا چاہتی
ہیں اس لیے یہ سب کچھ کروا رہی ہیں۔ کوئٹہ کے دھماکے یقیناً ایک فرقے کے لوگوں کے
خلاف ہوتے ہیں لیکن اس کا کیا ثبوت ہے کہ دھماکا دوسرا فرقہ کروا رہا ہے۔ ان
دھماکوں کے ساتھ ہی شیعوں کے خلاف اور سنیوں کے خلاف موبائلوں پر پیغامات شروع
ہوگئے ہیں۔ شیعوں کے خلاف زیادہ اس لیے کہ اس بات کی آسانی ہوتی ہے ان کی تعداد
کم ہے اور ان تک یہ پیغامات نہ پہنچنے پائیں ورنہ شاید ساری سازش سامنے آجائے گی۔
آج کل یہ پیغام چل رہا ہے کہ 1983 کے فسادات میں کوئٹہ میں 700 سنی قتل ہوئے۔
عورتیں اغوا ہوئیں اور ان کو چھڑانے کے لیے جانے والے 17 پولیس اہلکار شہید
ہوئے یہ پیغام اور اسی طرح ایران کے خلاف دوسرے پیغامات بھی موبائل پر گشت
کررہے ہیں لیکن بھائی لوگ پیغام دے رہے ہیں 1983 کے فساد کا اور جنرل موسیٰ
1981 سے 1991 تک گورنر تھے۔ تین سال پہلے تو خوشدل خان آفریدی باکے کے
آفریدی گورنر تھے۔ یہ پیغامات بھی کوئی سنی نہیں دے رہا ہے یہ بھی وہیں سے آرہے
ہیں جو چیختے ہوئے اپنے گھر گئے ہیں اور نعرے لگا رہے ہیں جیت گئے جیت
گئے اب بھی یقین نہیں آتا کہ پاکستان میں کون ہنگامے اور فساد کروا رہا ہے۔ تو پھر
انتظار کریں کسی بڑے سانحہ کا ورنہ حقیقت تو یہی ہے کہ جو کچھ ہے اس خطے
سے بھاگنے والے پھیلا رہے ہیں دونوں طرف کے لوگ کئی قسم کے پیغامات کو آگے
بڑھانے سے قبل ذرا سوچ لیں کہ وہ کیا پیغام آگے بڑھا رہے ہیں۔ اخبارات روز یہ خبر
لگاتے ہیں کہ دو شیعہ مرگئے دو سنی مرگئے اس قسم کی خبروں کی اشاعت سے
گریز کیا جائے لوگوں کے نام اور شناخت کے لیے کچھ اور شائع کیا جائے فرقہ یا مذہبی
بنیاد پر شناخت شائع کریں گے تو ایسا ہی ہوگا جیسا کہ یہ شر پھیلانے والے چاہتے ہیں۔
ساری کوششوں کے بعد بھی شیعہ، سنی نہیں لڑتے۔ یہی تشویش مغربی ایوانوں میں بھی
پھیلی ہے کہ آخر یہ لڑتے کیوں نہیں
مظفر اعجاز
No comments:
Post a Comment
Note: Only a member of this blog may post a comment.