لیکن پاکستانی عوام اب ان ساری چیزوں سارے ٹوپی ڈراموں کو سمجھ گئے ہیں۔ پہلے دور سے اسٹیج ڈراما دیکھا جاتا تھا لیکن اب سب کو پتا ہے کہ اسٹیج کے پیچھے ایک اور
پردہ ہوتا ہے جہاں بہروپ بھرے جاتے ہیں۔ چنانچہ کچھ دن ایک بہروپ اختیار کرکے دوسرا اختیار کیا جاتا ہے اگر کسی کو یہ بات بری لگتی ہے تو اس سے معذرت لیکن مرکز میں پاکستان مسلم لیگ ن نے تین سال تک پیپلز پارٹی کی حکومت کو بنوایا چلایا ور ہر مشکل مرحلے میں اسے سہارا دیا۔ پیپلز پارٹی کی حلیف رہنے والی مسلم لیگ ن بعد میں نرم اپوزیشن بن گئی اور مزید دو سال جمہوریت کے بہترین مفاد میں اپوزیشن ہونے کے باوجود پی پی کو تحفظ فراہم کرتی رہی حکومت گرنے کے قریب ہوتی تو ن لیگ اسے بچالیتی زبان سے البتہ پی پی کو چور ڈاکو اور زرداری صاحب کو چوروں ڈاکوئوں کا سردار کہتے رہے۔ لیکن اب وہ نرم یا فرینڈلی اپوزیشن سے ایک قدم آگے بڑھ کر حکومت پر زیادہ تنقید کرنے لگے ہیں۔ لیکن اس وقت مرکز میں فرینڈلی اپوزیشن نے اپوزیشن کا لبادہ اوڑھ لیا ہے تاکہ نگراں سیٹ اپ کے لیے ''سیٹنگ'' آسان ہوجائے۔ اخبارات میں واویلا اپنی جگہ چلتا رہے گا۔ شاید یہ ٹوپی ڈراما کسی کو جلدی سمجھ میں نہیں آیا ہو لیکن متحدہ قومی موومنٹ چونکہ بقول کسے بے شمارویں مرتبہ حکومت سے الگ ہوگئی ہے۔ پتا نہیں کیا وجہ ہے اب لوگوں کو متحدہ کا ٹوپی ڈراما بہت جلد ہی سمجھ میں آجاتا ہے۔ چنانچہ جوں ہی متحدہ بے شمارویں مرتبہ حکومت سے الگ ہوئی ساری کہانی لوگوں کی سمجھ میں آگئی کہ عدالت کی جانب سے حکومت سندھ کو دس دن میں قائد حزب اختلاف کا فیصلہ کرنے کا حکم دیا گیا تھا اس میں اب چند ہی دن رہ گئے ہیں چنانچہ متحدہ الگ ہوئی اور اچانک سندھ اسمبلی میں ایک اپوزیشن وجود میں آگئی اور اب وہ آئینی ضرورت یا مجبوری بھی پوری ہوجائے گی کہ حکومت اپوزیشن سے مشاورت کرکے سندھ میں بھی نگراں سیٹ اپ کے لیے ''سیٹنگ'' آسان ہوجائے گی شام کو حکومت سے الگ ہوئے اور فوراً مسلم لیگ فنکشنل سے ملاقات کرلی تاکہ سندھ میں اپوزیشن لیڈر کا مک مکا ہوجائے اور نگران وزارتوں کی بانٹ ہوسکے لیکن ایک بات اور ہے کیا ملک میں یہی ٹوپی ڈرامے ہورہے ہیں کیا وجہ ہے کہ ہماری قوم میڈیا کے ٹوپی ڈرامے کو نہیں پہچانتی چند برس قبل جو میڈیا گرو بلکہ گرو گھنٹال امریکا کے مخالف تھے آج اس کے حامی بنے بیٹھے ہیں۔ جو روس کے چمچے تھے وہ آج امریکن لائن پر چل رہے ہیں۔ میڈیا کو سیاستدانوں کا گھپلا نظر آتا ہے لیکن سول وفوجی بیورو کریسی کے گھپلے اسے کم ہی نظر آتے ہیں۔ پاکستان میں 30 سال سے زیادہ اقتدار میں رہنے والی فوج نے شاید کوئی غلطی ہی نہیں کی بقیہ مدت میں بھی بڑا حصہ فوج کے سائے تلے حکومت چلی ہے لیکن کوئی اس ٹوپی ڈرامے کو کیوں نہیں سمجھتا یا اس کا ذکر کیوں نہیں کرتا کہ ایوب خان کو اپنا بوجھ منتقل کرنا تھا تو انہوں نے کنونشن لیگ کا ٹوپی ڈراما رچایا جنرل ضیاء الحق کو اپنا بوجھ منتقل کرنا تھا تو انہوں نے مسلم لیگ ج اور ن وضع کیں جب جنرل پرویز کو اپنا بوجھ منتقل کرناتھا تو انہوں نے ق لیگ پیدا کی۔ ان ٹوپی ڈراموں کو ٹوپی ڈراما کیوں نہیں کہا جاتا تھا۔ کیا این آر او ٹوپی ڈراما نہیں تھا۔ کیا پاکستانی وزیرداخلہ کراچی میں آگ وخون کے کھیل کو ٹوپی ڈراموں کے ذریعہ نہیں گھماتے رہتے کبھی اے این پی، متحدہ اور پی پی پی کی لٹراتی ہوئی ہے اور کبھی صلح پھر اچانک امن کمیٹی اور ذوالفقار مرزا کا ٹوپی ڈراما آجاتا ہے۔ یہ سارے ڈرامے لوگوں کو سمجھ میں آنے لگتے ہیں تو کراچی میں طالبان کی آمد کا ٹوپی ڈراما چل پڑتا ہے اس میں میڈیا بھی شریک ہے ذرا احتیاط سے لیکن گزشتہ تین سال میں آزاد عدلیہ نے دو، تین فیصلوں کے سوا لاکھوں تبصرے ہی تو کیے ہیں جن کی وجہ سے ہم اسے پاکستان کا سب سے بڑا ٹاک شو چینل کہتے ہیں جہاں صرف ٹاک ہوتی رہتی ہے نتیجہ صفر ٹوپی ڈراموں کی اور بھی بہت سی قسمیں ہیں۔ آج کل موبائلوں پر لطیفے بھی آرہے ہیں بوٹ اور ٹوپی والے
کسی بھی وقت نیا ٹوپی ڈراما شروع کرسکتے ہیں۔ مظفر اعجاز
No comments:
Post a Comment
Note: Only a member of this blog may post a comment.