خاندان کا ادارہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار کیوں ہے؟
ایک وقت تھا کہ خاندان ایک مذہبی کائنات تھا۔ ایک تہذیبی واردات تھا۔ محبت کا قلعہ تھا۔ نفسیاتی حصار تھا۔ جذباتی اور سماجی زندگی کی ڈھال تھا ایک وقت یہ ہے کہ خاندان افراد کا مجموعہ ہے۔ چنانچہ جون ایلیا نے شکایت کی ہے ؎
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ خاندان اپنی اصل میں ایک مذہبی تصور ہے۔ کائناتی سطح کے مفہوم میں مرد اللہ تعالیٰ کی ذات اور عورت اللہ تعالیٰ کی صفت کا مظہر ہے، چنانچہ شادی کا ادارہ ذات اور صفت کے وصال کی علامت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں شادی کی غیرمعمولی اہمیت ہے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کو نصف دین کہا ہے۔ مرد اور عورت کے تعلق کی اسی نوعیت کی وجہ سے اسلام طلاق کو سخت ناپسند کرتا ہے، کیونکہ اس سے انسانی سطح پر ذات اور صفت میں علیحدگی ہوجاتی ہے۔ لیکن مرد اور عورت کے اس تعلق کا مرکز اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ اسی ذات نے انسانوں کو ''جوڑے'' کی صورت میں پیدا کیا۔ اسی ذات نے زوجین کے درمیان محبت پیدا کی۔ اسی ذات نے بچوں کی پیدائش کو عظیم نعمت اور رحمت میں تبدیل کیا اور اسی ذات نے بچوں کی پرورش پر بے پناہ اجر رکھا۔ مذہبی معاشروں میں خاندان کا یہ تصور انسانوں کے شعور میں پوری طرح راسخ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ خاندان کا ادارہ لاکھوں یا ہزاروں سال کا سفر طے کرنے کے باوجود بھی نہ صرف یہ کہ باقی اور مستحکم رہا بلکہ اس میں کروڑوں انسان ایک حسن و جمال اور ایک گہری رغبت بھی محسوس کرتے رہے۔ لیکن جیسے ہی خدا انسانوں کے باہمی تعلق سے غائب ہوا خاندان کا ادارہ اضمحلال، انتشار اور انہدام کا شکار ہوگیا۔
مذہب کی وجہ سے خاندان کے ادارے کی ایک تقدیس تھی۔ اس پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کا سایہ تھا۔ اس میں کائناتی سطح کی معنویت تھی جس کا کچھ نہ کچھ ابلاغ بہت کم پڑھے لکھے لوگوں تک بھی کچھ نہ کچھ ضرور ہوتا تھا۔ مذہبی بنیادوں کی وجہ سے خاندان میں ایک برکت تھی اور اس کے ساتھ اجروثواب کے درجنوں تصورات وابستہ تھے۔ لیکن خدا کے تصور کے منہا ہوتے ہی اور مذہب سے رشتہ توڑتے ہی خاندان اچانک صرف ایک حیاتیاتی، سماجی اور معاشی حقیقت بن گیا۔ یعنی انسان محسوس کرنے لگے کہ خاندان انسانی نسل کی بقا اور تسلسل کے لیے ضروری ہے۔ خاندان نہیں ہوگا تو انسانی نسل فنا ہوجائے گی۔ خاندان کے خالص حیاتیاتی تصور نے مرد اور عورت کے باہمی تعلق کو صرف جسمانی تعلق تک محدود کردیا۔ اس تعلق کی اہمیت تو بہت تھی مگر اس میں معنی کا فقدان تھا، اور اس سے کوئی تقدیس وابستہ نہ تھی۔ خدا اور مذہب سے بے نیاز ہوتے ہی انسان کو محسوس ہونے لگا کہ خاندان صرف ہماری سماجی ضرورت ہے۔ انسان ایسی حالت میں پیدا ہوتا ہے کہ اسے طویل عرصے تک ماں باپ اور دوسرے خاندانی رشتوں کی ''ضرورت'' ہوتی ہے، لیکن ضرورت ایک ''مجبوری'' اور ایک ''جبر'' ہے اور اس کی کوئی اخلاقیات نہیں۔ چنانچہ مغربی دنیا میں کروڑوں انسانوں نے اس مجبوری اور جبر کے طوق کو گلے سے اتار پھینکا۔ انسان صرف سماجی نفسیات کا اسیر ہوجاتا ہے تو اس سے ''معاشی ضرورت'' کے نمودار ہونے میں دیر نہیں لگتی، اور معاشی ضرورت دیکھتے ہی دیکھتے سماجی ضرورت کو بھی ''ثانوی ضرورت'' بنادیتی ہے۔ خاندان کے ادارے کے حوالے سے یہی ہوا۔ خاندان کے سماجی ضرورت ہونے کے تصور سے معاشی ضرورت کا تصور نمودار ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے خاندان کے ادارے کے تشخص کا نمایاں ترین پہلو بن گیا۔
خاندان کے ادارے کے حوالے سے خدا اور مذہب کے بعد سب سے زیادہ اہمیت محبت کے تصور کو حاصل ہے۔ محبت انسانی زندگی میں کتنی اہم ہے اس کا اظہار میر تقی میرؔ نے اس سطح پر کیا ہے جس سے بلند سطح کا تصور ذرا مشکل ہے۔ میرؔ نے کہا ہے ؎
مادی دنیا حقیقی خدا کے انکار تک محدود نہ رہی بلکہ اس نے دولت کی صورت میں اپنا خدا پیدا کرکے دکھایا، اور وہ معاشرے جو کبھی ''خدا مرکز'' یا God Centric تھے وہ دولت مرکز یا Money Centric بنتے چلے گئے۔ ان معاشروں میں دولت ہر چیز کا نعم البدل بن گئی۔ اس نے حسب نسب کی صورت اختیار کرلی۔ وہی شرافت اور نجابت کا معیار ٹھیری۔ اسی سے علم و ہنر منسوب ہوگئے، اسی سے انسانوں کی اہمیت کا تعین ہونے لگا، اسی نے خوشی اور غم کی صورت اختیار کرلی۔ یہاں تک کہ دولت ہی ''تعلق'' بن کر رہ گئی۔ دولت کی اس بالادستی اور مرکزیت نے معاشروں میں قیامت برپا کردی۔ مغرب کی تو بات ہی اور ہے، ہم نے اپنے معاشرے میں دیکھا ہے کہ والدین تک معاشی اعتبار سے کامیاب بچوں کو اپنے اُن بچوں پر ترجیح دینے لگتے ہیں جو معاشی اعتبار سے نسبتاً کم کامیاب ہوتے ہیں، خواہ معاشی اعتبار سے کمزور بچوں میں کیسی ہی انسانی خوبیاں کیوں نہ ہوں۔ پاکستان اور دوسرے ملکوں میں مشرق وسطیٰ جانے کا رجحان پیدا ہوا تو کروڑوں لوگ اپنے خاندانوں کو چھوڑ کر بہتر معاشی مستقبل کے لیے عرب ملکوں میں جا آباد ہوئے۔ یہ لوگ دس پندرہ اور بیس سال کے بعد لوٹے تو ان کے پاس دولت تو بہت تھی مگر وہ اپنے بچوں کے لیے تقریباً اجنبی تھے۔ یہاں تک کہ ان کی بیویوں اور ان کے درمیان بھی ''نیم اجنبی'' کا تعلق استوار ہوچکا تھا۔ انسانوں کی شخصیتوں کی جڑیں معاشیات میں اتنی گہری پیوست ہوئیں کہ ہم نے متوسط طبقے کے بہت سے بچوں کو یہ کہتے سنا کہ ہمیں ہمارے باپ نے دیا ہی کیا ہے؟ حالانکہ ان کے پاس شرافت کی دولت تھی، ایمان داری کا سرمایہ تھا، علم کی میراث تھی، تخلیقی رجحانات کا ورثہ تھا۔ لیکن انہیں ان میں سے کسی چیز کی موجودگی کا شعور نہ تھا، کسی چیز کی موجودگی کا احساس نہ تھا۔ انہیں شعور اور احساس تھا تو صرف اس چیز کا کہ ان کے پاس دولت نہیں ہے۔ کار اور کوٹھی نہیں ہے۔ بینک بیلنس نہیں ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ شادی بیاہ کے معاملات میں دولت تقریباً واحد معیار بن چکی ہے۔ اس سلسلے میں مذہبی اور سیکولر کی کوئی تخصیص نہیں۔ دولت کے حمام میں سب ننگے ہیں۔ اس کے بعد بھی لوگ سوال کرتے ہیں کہ خاندان کا ادارہ کیوں کمزور پڑرہا ہے!
No comments:
Post a Comment
Note: Only a member of this blog may post a comment.